Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Raising the hands before saying the takbir)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
877.
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے حتیٰ کہ وہ آپ کے کندھوں کے برابر ہوجاتے، پھر اللہ اکبر کہتے۔ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ یہ فعل اس وقت بھی کرتے جب رکوع کی تکبیر کہتے۔ اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو پھر یہی کرتے اور فرماتے [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] اور سجدے میں ایسا نہیں کرتے تھے۔
تشریح:
(1) تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرنے کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے یا پہلے یا کہ بعد میں۔ جمہور کے نزدیک رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے، موالک، شوافع اورحنابلہ کا بھی یہی موقف ہے۔ احناف کے نزدیک رفع الیدین پہلے کیا جائے اور تکبیر تحریمہ بعد میں کہی جائے کیونکہ ہاتوں کا اٹھانا معبودان باطلہ کی نفی کے قائم مقام ہے اور اللہ اکبر میں توحید کا اثبات ہے۔اور عربی میں نفی پہلے ہوتی ہے اور اثبات بعد میں، جیسے لاالٰہ الا اللہ میں ہے۔ اور بعض کا موقف ہے کہ تکبیر تحریمہ پہلے کہی جائے اور رفع الیدین بعد میں کیا جائے۔ حدیث کی رو سے تینوں طریقے درست ہیں، کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: [رَأَيْتُ النبيَّ ﷺ افْتَتَحَالتَّكْبِيرَ في الصَّلاةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حتّى يَجْعَلَهُما حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ]”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نماز کا افتتاح تکبیر تحریمہ سے کرتے اور تکبیر کہتے وقت رفع الیدین کرتے یہاں تک کہ انھیں کندھوں کے برابر لے جاتے۔“(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:۷۳۸) نیز حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: [انه رای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم يرفَعُيديهِ مع التکبیر]”انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے تھے۔“(سنن أبي داؤد، الصلاة حدیث:۷۵۲) یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے کچھ الفاظ اس طرح ہیں: [إذا قامالصَّلاة رفعَ يديهِ حتی تکونا حَذْوَ مَنكِبَيْهِ ثم كَبَّرَ]”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے، پھر تکبیر کہتے۔“(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:۳۹۰(۲۳) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ سے پہلے کیا جائے۔ اور صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت ہے، ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب آپ نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر رفع الیدین کرتے۔۔۔ اور پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:۳۹۱) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے بعد کیا جائے۔ غرض مذکورہ تین طریقوں میں سے کوئی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور گاہے گاہے ہر ایک پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ تمام کی حیثیت برابر ہے۔ کسی طریقے کو ترجیح دینا درست نہیں کیونکہ ترجیح اس وقت دی جاتی ہے جب متعدد روایات پر عمل مشکل ہو، جبکہ یہاں ایسے نہیں ہے بلکہ مختلف اوقات میں ہر ایک روایت پر عمل ممکن ہے، لہٰذا جمع اولیٰ ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حکمت کے بارےاہل علم کی مختلف آراء ہیں: امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کےلیے کرتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عجزوانکسار اور خود سپردگی کا اظہار ہے اوریہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی قیدی پکڑا جائے تو وہ خود سپردگی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کھڑے کردیتا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بندہ ہاتھ کھڑے کرکے اللہ اکبر کہتا ہے تو اس کے قول اور فعل میں موافقت ہوجاتی ہے کہ وہ تمام تر امور دنیا کو چھوڑ کراپنے رب سے مناجات کرنے کے لیے نماز کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے حتیٰ کہ وہ آپ کے کندھوں کے برابر ہوجاتے، پھر اللہ اکبر کہتے۔ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ یہ فعل اس وقت بھی کرتے جب رکوع کی تکبیر کہتے۔ اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو پھر یہی کرتے اور فرماتے [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] اور سجدے میں ایسا نہیں کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرنے کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے یا پہلے یا کہ بعد میں۔ جمہور کے نزدیک رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے، موالک، شوافع اورحنابلہ کا بھی یہی موقف ہے۔ احناف کے نزدیک رفع الیدین پہلے کیا جائے اور تکبیر تحریمہ بعد میں کہی جائے کیونکہ ہاتوں کا اٹھانا معبودان باطلہ کی نفی کے قائم مقام ہے اور اللہ اکبر میں توحید کا اثبات ہے۔اور عربی میں نفی پہلے ہوتی ہے اور اثبات بعد میں، جیسے لاالٰہ الا اللہ میں ہے۔ اور بعض کا موقف ہے کہ تکبیر تحریمہ پہلے کہی جائے اور رفع الیدین بعد میں کیا جائے۔ حدیث کی رو سے تینوں طریقے درست ہیں، کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: [رَأَيْتُ النبيَّ ﷺ افْتَتَحَالتَّكْبِيرَ في الصَّلاةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حتّى يَجْعَلَهُما حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ]”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نماز کا افتتاح تکبیر تحریمہ سے کرتے اور تکبیر کہتے وقت رفع الیدین کرتے یہاں تک کہ انھیں کندھوں کے برابر لے جاتے۔“(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:۷۳۸) نیز حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: [انه رای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم يرفَعُيديهِ مع التکبیر]”انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے تھے۔“(سنن أبي داؤد، الصلاة حدیث:۷۵۲) یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے کچھ الفاظ اس طرح ہیں: [إذا قامالصَّلاة رفعَ يديهِ حتی تکونا حَذْوَ مَنكِبَيْهِ ثم كَبَّرَ]”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے، پھر تکبیر کہتے۔“(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:۳۹۰(۲۳) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ سے پہلے کیا جائے۔ اور صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت ہے، ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب آپ نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر رفع الیدین کرتے۔۔۔ اور پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:۳۹۱) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے بعد کیا جائے۔ غرض مذکورہ تین طریقوں میں سے کوئی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور گاہے گاہے ہر ایک پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ تمام کی حیثیت برابر ہے۔ کسی طریقے کو ترجیح دینا درست نہیں کیونکہ ترجیح اس وقت دی جاتی ہے جب متعدد روایات پر عمل مشکل ہو، جبکہ یہاں ایسے نہیں ہے بلکہ مختلف اوقات میں ہر ایک روایت پر عمل ممکن ہے، لہٰذا جمع اولیٰ ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حکمت کے بارےاہل علم کی مختلف آراء ہیں: امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کےلیے کرتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عجزوانکسار اور خود سپردگی کا اظہار ہے اوریہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی قیدی پکڑا جائے تو وہ خود سپردگی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کھڑے کردیتا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بندہ ہاتھ کھڑے کرکے اللہ اکبر کہتا ہے تو اس کے قول اور فعل میں موافقت ہوجاتی ہے کہ وہ تمام تر امور دنیا کو چھوڑ کراپنے رب سے مناجات کرنے کے لیے نماز کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھاتے کہ وہ آپ کے دونوں مونڈھوں کے بالمقابل ہو جاتے، پھر اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے، اور سجدہ کرتے وقت ایسا نہیں کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Umar (RA) said: "I saw the Messenger of Allah (ﷺ), when he stood to pray, raise his hands until they were in level with his shoulders, then he said the takbir. He did that when he said the Takbir before bowing, and he did that when he raised his head from bowing and said: 'Sami Allahu liman hamidah (Allah hears those who praise Him)'. Bu he did not do that during the prostration".