Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: The location of the right hand on the left in prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
889.
حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) میں نے (اپنے دل میں) کہا: میں ضرور رسول اللہ ﷺ کی نماز کو غور سے دیکھوں گا کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ میں نے (توجہ سے) آپ کی طرف دیکھا۔ آپ کھڑے ہوئے اللہ اکبر اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے حتیٰ کہ وہ آپ کے کانوں کے برابر ہوگئے۔ پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی، جوڑ اور کلائی پر رکھا۔ پھر جب آپ نے رکوع کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے اسی (پہلے رفع الیدین کی) طرح ہاتھ اٹھائے اور آپ نے اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے۔ پھر جب آپ نے اپنا سر اٹھایا تو اسی طرح رفع الیدین کیا۔ پھر سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں کے برابر رکھا۔ پھر بیٹھے اور اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھی اور اپنی دائیں کہنی کا کنارہ اپنی دائیں ران پر رکھا۔ پھر ہاتھ کی دو انگلیاں بند کیں اور (درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنایا۔ پھر اپنی (تشہد کی) انگلی کو اٹھایا، چنانچہ میں نے دیکھا، آپ اسے حرکت دیتے تھے اس کے ساتھ دعا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ (ہتھیلی) کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر اس طرح رکھے کہ ہتھیلی کا اگلا حصہ (انگلیاں) بائیں کلائی پر اور پچھلا حصہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر ہو۔ یہ تب ہے جب ہاتھ سے مراد صرف ہتھیلی ہو۔ ہاتھ سے کہنی تک بازو بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے کنارےبائیں کہنی تک پہنچ جائیں گے۔ اگرچہ یہ طریقہ بھی درست ہے کیونکہ ایک روایت میں ذراع کو ذراع پر رکھنے کا ذکر ہے اور ذراع کہنی تک ہوتا ہے۔ لیکن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل سے اس حدیث پر بھی عمل ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اس (ذراع والی) صورت کو اپنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (2) صحیح مسلم کی ایک حدیث میں، جو کہ سنن نسائی میں نمبر ۸۸۸ کے تحت گزری ہے، دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنے کا بھی ذکر ہے۔ تو دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مختلف اوقات میں دونوں پر عمل ممکن ہے، کبھی ایک پر عمل کرلے اور کبھی دوسری پر۔ دونوں طرح صحیح ہے۔ اس طرح دونوں روایات پر عمل ہوجائے گا۔ لیکن دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دینا کہ دائیں ہاتھ کی درمیانی تین انگلیاں بائیں پر رکھے اور چھوٹی انگلی اور انگوٹھے سے جوڑ کو پکڑلے، باطل ہے کیونکہ اس صورت میں حدیث میں وارد دونوں طریقوں میں سے کسی پر بھی عمل نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی تیسری شکل بن جاتی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں، لہٰذا ایسا کرنا درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ کبھی دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ لے اور کبھی دائیں سے بائیں کو پکڑلے۔ واللہ أعلم۔ (3) ”دائیں کہنی کا کنارہ ران پر رکھا۔“ اس کنارے سے کہنی کا کلائی والا کنارہ مراد ہے۔ گویا کہنی کو ران کی جڑوالی طرف پر رکھ کر کھڑا کرلے اور کلائی کو ران پر بچھالے۔ مگر یہ صورت صرف تورک (قعدہ میں پاؤں کی بجائے زمین پر بیٹھنا اور پاؤں کو دائیں پنڈلی کے نیچے سے باہر نکال لینا) کی صورت میں ممکن ہے۔ پاؤں پر بیٹھنے کی صورت میں صرف ہتھیلیاں ران اور گھٹنوں پر ہوں گی اور بازو قوس کی تانت کی طرح ہوں گے۔ (4) تشہد میں بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اس طرح رکھا جائے کہ انگلیاں گھٹنے پرہوں اور ہتھیلیاں ران پر مگر دایاں ہاتھ بند کرکے رکھا جائے۔ اس حدیث میں بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کنارے کی دو انگلیاں بند کرے۔ درمیانی انگلی اورانگوٹھے کا حلقہ بنا کر تشہد کی انگلی کو کھلا چھوڑ دے جس طرح کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ (5) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران تشہد میں سلام تک انگلی کو حرکت دینا مسنون ہے۔ [يُحَرِّكُ ] فعل مضارع ہے جو یہاں استمرار کا فائدہ دے رہا ہے کیونکہ [يَدْعُو بِهَا] اس سے حال ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کو حرکت دے رہے تھے، اور درآں حالیکہ آپ اس کے ساتھ دعا کر رہے تھے۔ نامور محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: [وفیه تحریكھا دائما، اذ الدعاء بعد التشھد] ”اس حدیث سے پورے تشہد میں انگلی کو حرکت دینا ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ دعا تشہد کے بعد (سلام تک) ہوتی ہے۔“ (عون المعبود، الصلاة، باب الإشارة فی التشھد، حدیث:۸۹۸) سنن ابی داود کی ایک روایت میں [لَايُحَرِّكُهَا] کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ شاذ اور ضعیف ہیں۔ ان الفاظ کو روایت کرنے میں محمد بن عجلان سے زیاد بن سعد متفرد ہے۔ عامر بن عبداللہ سے ابن عجلان کے علاوہ باقی دو ثقہ راویان الفاظ کو بیان نہیں کرتے، نیز زیاد کے علاوہ محمد بن عجلان کے باقی چار ثقہ شاگرد یہ الفاظ بیان نہیں کرتے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے مگر اس میں یہ اضافہ مذکور نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث:۱۷۵) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین میں محمد بن عجلان کو تیسرے طبقے کے مدلسین میں شمار کیا ہے اور ان الفاظ میں ابن عجلان کی عامر بن عبداللہ سے سماع کی تصریح نہیں ملی، لہٰذا [لَا يُحَرِّكُهَا ] کے الفاظ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ درست موقف یہی ہے کہ تشہد میں انگلی کو حرکت دیتے رہنا بھی جائز ہے۔ لیکن ایسا وقتاً فوقتاً کرنا چاہیے کیونکہ اکثر روایات میں صرف اشارے کا ذکر ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں ہے۔ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز بیان کیا ہے انھوں نے اسے بیان نہیں کیا۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل اشارے کا تھانہ کہ حرکت دینے کا۔ اور اشارے کا طریقہ یہ ہے کہ ۵۳کی گرہ لگا کر مسنون تشہد سے لے کر آخر تک انگلی کو کھڑا رکھنا۔ (6) اشارہ اور حرکت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لغت میں ان کے الگ الگ معانی ہیں۔اس لیے یہ دو مختلف فعل ہیں جو نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں۔ کبھی آپ نے ایک طریقہ اختیار کیا اور کبھی دوسرا۔ یہی تطبیق ان شاء اللہ اقرب الی الصواب ہے۔ دونوں (اشارے اور حرکت) کو تطبیق کے ذریعے سے ایک ہی تشہد میں یکجا کرنا محل نظر لگتا ہے کیونکہ دونوں کلمات کا مصداق دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ واللہ أعلم۔ (7) احناف کے نزدیک لَا پر انگلی اوپر اٹھائے اور الا پر نیچے کرے۔ گویا اٹھانا نفی کی علامت ہے اور گرانا اثبات کی۔ یہی لا اور الا کے معنی ہیں۔ شوافع کے نزدیک الا اللہ پر انگلی اٹھائے اور پھر نیچے کرے کیونکہ الا اللہ میں توحید کا اثبات ہے، لہٰذا انگلی کے ساتھ فعلا بھی ایک اللہ کی توحید بیان کرے۔ تاہم ان میں سے کسی کے پاس اس مقام پر انگلی کے اٹھانے اور گرانے کی کوئی دلیل نہیں ہے جبکہ صحیح موقوف کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے ۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذ ا قال النووي، وقال ابن القيم: " حديث
صحيح ". وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان في "صحيحيهما") .
إسناده: حدثنا الحسن بن علي: نا أبو الوليد: نا زائدة عن عاصم بن
كليب... بإسناده ومعناه.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير كليب، وهو ثقة
كما تقدم. ولذا قال النووي في "المجموع " (3/312) :
" رواه أبو داود بإسناد صحيح ". وقال ابن القيم في "زاد المعاد" (1/85) :
" حديث صحيح ".
والحديث أخرجه النسائي (1/141 و 187) ، والدارمي (1/314- 315) ،
وابن الجارود (208) ، وابن حبان (485) ، والبيهقي (2/27- 28 و 28 و 132) ،
وأحمد (318) من طرق عن زائدة... به.
ورواه ابن خزيمة وابن حبان؛ أي: في "صحيحيهما"؛ كما في "التلخيص "
(3/280- 281) . وقال في " الفتح " (2/178) :
" وصححه ابن خزيمة وغيره ".
وأخرجه البخاري في "رفع اليدين " (ص 11) من هذا الوجه ببعض اختصار.
وأخرجه النسائي أيضا (11/26 و 173 و 186) ، وابن ماجه (1/270-
271) ، والشافعي في "الأم " (1/90- هامش) ، وفي "اختلاف الحديث " (7/)
- المطبوع على هامش "الأم "-، والطيالسي (رقم 1020) ، والبيهقي (2/111 و 131) ،
وأحمد (4/316 و 317 و 318 و 319) ، والبخاري في "رفع اليدين " (ص 10) من
طرق أخرى عن عاصم... به؛ بعضهم مختصراً وبعضهم مطولاً نحوه.
قلت: وفي حديث زائدة بيان صفة الإشارة، قال:
فرأيته يحركها؛ يدعو بها.
(تنبيه) : لِيُعَلَمْ أن قوله في الحديث: وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى
والرسغ والساعد... لازمه أنه وضعهما على صدره، وهذا قد صَرحَ به علقمة عن
أبيه وائل: عند ابن خزيمة في "صحيحه "؛ كما نقلناه عند الكلام على حديثه
المتقدم (رقم 714) (ص 310) .
(تنبيه آخر) : في حديث زائدة هذا زيادة في آخره بلفظ:
ثم رفع أصبعه، فرأيته يحركها يدعو بها.
وعند أحمد ومن قبله من طرق كثيرة عن زائدة.
وعند ابن حبان (1857) : من طريق أبي الوليد الطيالسي شيخ شيخ المصنف
عنه.
وقد روي من حديث عبد الله بن الزبير:
أنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان لا يحركها.
وهو حديث معلول؛ ولذلك أوردته في الكتاب الأخر رقم (175) .
ولم يتتئه لعلته المعلقُ على"شرح السنة" للبغوي، فجرى على ظاهر إسناده؛
فقوّاه! ولو أنه تتبع طرقه، ولم يقلد في ذلك غيره؛ لتبينت له علته إن شاء الله
تعالى!
حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) میں نے (اپنے دل میں) کہا: میں ضرور رسول اللہ ﷺ کی نماز کو غور سے دیکھوں گا کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ میں نے (توجہ سے) آپ کی طرف دیکھا۔ آپ کھڑے ہوئے اللہ اکبر اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے حتیٰ کہ وہ آپ کے کانوں کے برابر ہوگئے۔ پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی، جوڑ اور کلائی پر رکھا۔ پھر جب آپ نے رکوع کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے اسی (پہلے رفع الیدین کی) طرح ہاتھ اٹھائے اور آپ نے اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے۔ پھر جب آپ نے اپنا سر اٹھایا تو اسی طرح رفع الیدین کیا۔ پھر سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں کے برابر رکھا۔ پھر بیٹھے اور اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھی اور اپنی دائیں کہنی کا کنارہ اپنی دائیں ران پر رکھا۔ پھر ہاتھ کی دو انگلیاں بند کیں اور (درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنایا۔ پھر اپنی (تشہد کی) انگلی کو اٹھایا، چنانچہ میں نے دیکھا، آپ اسے حرکت دیتے تھے اس کے ساتھ دعا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ (ہتھیلی) کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر اس طرح رکھے کہ ہتھیلی کا اگلا حصہ (انگلیاں) بائیں کلائی پر اور پچھلا حصہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر ہو۔ یہ تب ہے جب ہاتھ سے مراد صرف ہتھیلی ہو۔ ہاتھ سے کہنی تک بازو بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے کنارےبائیں کہنی تک پہنچ جائیں گے۔ اگرچہ یہ طریقہ بھی درست ہے کیونکہ ایک روایت میں ذراع کو ذراع پر رکھنے کا ذکر ہے اور ذراع کہنی تک ہوتا ہے۔ لیکن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل سے اس حدیث پر بھی عمل ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اس (ذراع والی) صورت کو اپنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (2) صحیح مسلم کی ایک حدیث میں، جو کہ سنن نسائی میں نمبر ۸۸۸ کے تحت گزری ہے، دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنے کا بھی ذکر ہے۔ تو دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مختلف اوقات میں دونوں پر عمل ممکن ہے، کبھی ایک پر عمل کرلے اور کبھی دوسری پر۔ دونوں طرح صحیح ہے۔ اس طرح دونوں روایات پر عمل ہوجائے گا۔ لیکن دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دینا کہ دائیں ہاتھ کی درمیانی تین انگلیاں بائیں پر رکھے اور چھوٹی انگلی اور انگوٹھے سے جوڑ کو پکڑلے، باطل ہے کیونکہ اس صورت میں حدیث میں وارد دونوں طریقوں میں سے کسی پر بھی عمل نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی تیسری شکل بن جاتی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں، لہٰذا ایسا کرنا درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ کبھی دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ لے اور کبھی دائیں سے بائیں کو پکڑلے۔ واللہ أعلم۔ (3) ”دائیں کہنی کا کنارہ ران پر رکھا۔“ اس کنارے سے کہنی کا کلائی والا کنارہ مراد ہے۔ گویا کہنی کو ران کی جڑوالی طرف پر رکھ کر کھڑا کرلے اور کلائی کو ران پر بچھالے۔ مگر یہ صورت صرف تورک (قعدہ میں پاؤں کی بجائے زمین پر بیٹھنا اور پاؤں کو دائیں پنڈلی کے نیچے سے باہر نکال لینا) کی صورت میں ممکن ہے۔ پاؤں پر بیٹھنے کی صورت میں صرف ہتھیلیاں ران اور گھٹنوں پر ہوں گی اور بازو قوس کی تانت کی طرح ہوں گے۔ (4) تشہد میں بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اس طرح رکھا جائے کہ انگلیاں گھٹنے پرہوں اور ہتھیلیاں ران پر مگر دایاں ہاتھ بند کرکے رکھا جائے۔ اس حدیث میں بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کنارے کی دو انگلیاں بند کرے۔ درمیانی انگلی اورانگوٹھے کا حلقہ بنا کر تشہد کی انگلی کو کھلا چھوڑ دے جس طرح کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ (5) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران تشہد میں سلام تک انگلی کو حرکت دینا مسنون ہے۔ [يُحَرِّكُ ] فعل مضارع ہے جو یہاں استمرار کا فائدہ دے رہا ہے کیونکہ [يَدْعُو بِهَا] اس سے حال ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کو حرکت دے رہے تھے، اور درآں حالیکہ آپ اس کے ساتھ دعا کر رہے تھے۔ نامور محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: [وفیه تحریكھا دائما، اذ الدعاء بعد التشھد] ”اس حدیث سے پورے تشہد میں انگلی کو حرکت دینا ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ دعا تشہد کے بعد (سلام تک) ہوتی ہے۔“ (عون المعبود، الصلاة، باب الإشارة فی التشھد، حدیث:۸۹۸) سنن ابی داود کی ایک روایت میں [لَايُحَرِّكُهَا] کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ شاذ اور ضعیف ہیں۔ ان الفاظ کو روایت کرنے میں محمد بن عجلان سے زیاد بن سعد متفرد ہے۔ عامر بن عبداللہ سے ابن عجلان کے علاوہ باقی دو ثقہ راویان الفاظ کو بیان نہیں کرتے، نیز زیاد کے علاوہ محمد بن عجلان کے باقی چار ثقہ شاگرد یہ الفاظ بیان نہیں کرتے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے مگر اس میں یہ اضافہ مذکور نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث:۱۷۵) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین میں محمد بن عجلان کو تیسرے طبقے کے مدلسین میں شمار کیا ہے اور ان الفاظ میں ابن عجلان کی عامر بن عبداللہ سے سماع کی تصریح نہیں ملی، لہٰذا [لَا يُحَرِّكُهَا ] کے الفاظ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ درست موقف یہی ہے کہ تشہد میں انگلی کو حرکت دیتے رہنا بھی جائز ہے۔ لیکن ایسا وقتاً فوقتاً کرنا چاہیے کیونکہ اکثر روایات میں صرف اشارے کا ذکر ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں ہے۔ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز بیان کیا ہے انھوں نے اسے بیان نہیں کیا۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل اشارے کا تھانہ کہ حرکت دینے کا۔ اور اشارے کا طریقہ یہ ہے کہ ۵۳کی گرہ لگا کر مسنون تشہد سے لے کر آخر تک انگلی کو کھڑا رکھنا۔ (6) اشارہ اور حرکت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لغت میں ان کے الگ الگ معانی ہیں۔اس لیے یہ دو مختلف فعل ہیں جو نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں۔ کبھی آپ نے ایک طریقہ اختیار کیا اور کبھی دوسرا۔ یہی تطبیق ان شاء اللہ اقرب الی الصواب ہے۔ دونوں (اشارے اور حرکت) کو تطبیق کے ذریعے سے ایک ہی تشہد میں یکجا کرنا محل نظر لگتا ہے کیونکہ دونوں کلمات کا مصداق دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ واللہ أعلم۔ (7) احناف کے نزدیک لَا پر انگلی اوپر اٹھائے اور الا پر نیچے کرے۔ گویا اٹھانا نفی کی علامت ہے اور گرانا اثبات کی۔ یہی لا اور الا کے معنی ہیں۔ شوافع کے نزدیک الا اللہ پر انگلی اٹھائے اور پھر نیچے کرے کیونکہ الا اللہ میں توحید کا اثبات ہے، لہٰذا انگلی کے ساتھ فعلا بھی ایک اللہ کی توحید بیان کرے۔ تاہم ان میں سے کسی کے پاس اس مقام پر انگلی کے اٹھانے اور گرانے کی کوئی دلیل نہیں ہے جبکہ صحیح موقوف کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
وائل بن حجر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں یہ ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ ﷺ نماز کیسے پڑھتے ہیں؛ چنانچہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہوئے تو اللہ اکبر کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھائے کہ انہیں اپنے کانوں کے بالمقابل لے گئے، پھر آپ نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی (کی پشت)، کلائی اور بازو پر رکھا ۱؎ ، پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو پھر اسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھا، پھر جب آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو پھر اسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل رکھا، پھر آپ نے قعدہ کیا، اور اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا، اور اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا، اور اپنی داہنی کہنی کا سرا اپنی داہنی ران کے اوپر اٹھائے رکھا، پھر آپ نے اپنی انگلیوں میں سے دو کو بند ۲؎ کر لیا، اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ (دائرہ) بنا لیا، پھر آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی، تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اسے حرکت دے رہے تھے اور اس سے دعا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا مسنون ہے، اور حدیث رقم (۸۸۸) میں داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کے پکڑنے کا ذکر ہے یہ دونوں طریقے مسنون ہیں، بعض لوگوں نے جو یہ صورت ذکر کی ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے، اور اپنے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے بائیں ہاتھ کی کلائی پکڑے تو یہ بدعت ہے، اس کا ثبوت نہیں، رہا یہ سوال کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر دونوں ہاتھ کہاں رکھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے اپنے سینے پر رکھے، کیونکہ ہاتھوں کا سینے پر ہی رکھنا ثابت ہے، اس کے خلاف جو بھی روایت ہے یا تو وہ ضعیف ہے یا تو پھر اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ ۲؎ : یعنی خنصر اور بنصر کو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Wa'il bin Hujr (RA) said: "I said: 'I am going to watch how the Messenger of Allah (ﷺ) prays'. So I watched him and he stood and said the takbir, and raised his hands until they were in the level with his ears, then he placed his right hand over his left hand, wrist and lower forearm. When he wanted to bow he raised his hands likewise. Then he prostrated and placed his hands in level with his ears. Then he sat up and placed his left leg under him; he put his left hand on his left thigh and knee, and he put the edge of his right elbow on his right thigh, then he held two of his fingers together and made a circle, and raised his forefinger, and I saw him moving it and supplicating with it".