Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: The Obligation to recite Fatihatil-Kitab in the prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
911.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ یا کچھ زائد قراءت نہیں پڑھتا۔“
تشریح:
(1) نماز صحیح ہونے کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں: ۱۔صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا۔ ۲۔سورۂ فاتحہ سے زائد بھی پڑھنا۔ گویا صرف فاتحہ فرض ہے، زائد قراءت فرض نہیں، اس کے بغیر بھی نماز ہوجائے گی۔ یہ محدثین کا مسلک ہے۔ احناف کے نزدیک فاتحہ پڑھنا واجب ہے ا ور فاتحہ کے بعد اور سورت پڑھنا فرض ہے، یعنی وہ فرض اور واجب میں فرق کرتے ہیں۔ احناف کے نزدیک فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ناقص ہوگی جس کی تلافی سجدۂ سہو سے کی جائے گی جب کہ محدثین کے نزدیک سورۂ فاتحہ ہر ایک کے لیے ضروری ہے، مقتدی کی صرف فاتحہ والی نماز ہوگی کیونکہ اس کے لیے جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ سے زائد پڑھنا منع ہے اور فاتحہ سے زائد والی نماز امام اور منفرد کی ہوگی۔ دونوں نمازیں بالکل صحیح ہیں۔ معلوم ہوا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہیے تاکہ وہ اس حدیث پر عمل کرسکے۔ (2) بعض لوگوں نے اس حدیث کے غلط معنیٰ کیے ہیں کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور زائد نہیں پڑھتا۔ گویا فاتحہ کے بغیر بھی نماز نہیں اور فاتحہ سے زائد کے بغیر بھی نماز نہیں۔ دونوں فرض ہیں مگر یہ معنیٰ کرنا لغت عربیہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ اسی قسم کی ایک اور حدیث ہے جس سے معنیٰ مزید واضح ہوگا: [لاتُقطعُيدُ السارقِ إلا في ربعِ دينارٍ فصاعدًا](صحیح البخاري، الحدود، حدیث:۶۷۸۹، وصحیح مسلم، الحدود، حدیث:۱۶۸۴)”چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد کے بغیر نہیں کاٹا جائے گا۔“ یعنی ہاتھ کاٹنے کے لیے چوتھائی دینار کی چوری کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی کاٹیں گے نہ ہو تب بھی۔ اس طرح متعلقہ حدیث کے معنی ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے سورت فاتحہ کی قراءت کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی نماز ہوجائے گی، نہ ہو تب بھی۔ زائد سے اس وقت جب نمازی منفرد یا امام ہو اور صرف فاتحہ سے اس وقت جب نمازی مقتدی ہو۔ (3) سورۂ فاتحہ کی قراءت ہر رکعت میں ضروری ہے، نہ کہ ساری نماز میں ایک دفعہ۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ کو نماز سکھانے کے بعد کہا تھا:[افعلذلكفيصلاتِك كلِّها] (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:۷۵۷) ”یہ کام اپنی ساری نماز(ہررکعت) میں کر۔“ احناف نے بغیر کسی دلیل کے فرض نماز کی آخری دورکعات میں قراءت فاتحہ یا مطلق قراءت کو ضروری قرار نہیں دیا بلکہ کوئی نمازی حتیٰ کہ امام بھی آخری دورکعات میں (رباعی نماز میں) قراءت کے بجائے خاموش کھڑا رہے تو اس کی نماز احناف کے نزدیک قطعاً صحیح ہوگی۔ حیرانی کی بات ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے اتنا بڑا خطرہ مول لیا گیا! (4) ”نماز نہیں ہوتی۔“ احناف معنیٰ کرتے ہیں کہ ”کامل نہیں ہوتی“ حالانکہ اگر یہ معنیٰ کریں تو لازم آئے گا کہ فاتحہ واجب بھی نہ ہو کیونکہ کمال کی نفی تو سنت کے ترک سے ہوتی ہے جب کہ فاتحہ پڑھنا احناف کے نزدیک واجب ہے، سوائے مقتدی کے کہتے ہیں: مطلق قراءت قرآن فرض ہے، فاتحہ واجب ہے۔ گر کوئی ا ور سورت پڑھ لے، فاتحہ نہ پڑھے تو نماز ہوجائے گی مگر سجدۂ سہو لازم ہوگا کیونکہ قرآن مجید میں تو آخری قعدہ اور تشہد کا بھی ذکر نہیں تو وہ فرض بھی نہ ہونا چاہیے، نیز یہ آیت کون سی نماز کی قراءت کے بارے میں اتری ہے؟ پھر یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے۔ اس کے ابہام کو دور کرتی ہے۔ اس کے اشکال کو واضح کرتی ہے۔ اگر اس قسم کے واضح الفاظ قرآن کی تفسیر نہیں بن سکتے تو حدیث کو تفسیر کہنے کا کیا فائدہ؟ غور فرمائیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة
في "صحاحهم ". وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ". وليس عنده ولا
البخاري: " فصاعداً ") .
إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد وابن السرح قالا: ثنا سفيان عن الزهري عن
محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت.
قلت: وهذا إسناد صحيح، وهو على شرط الشيخين من طريق قتيبة، وعلى
شرط مسلم من طريق ابن السرح- واسمه أحمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن
السرح-.
وقد أخرجاه- كما يأتي- من طرق عن سفيان- وهو ابن عيينة- دون قوله:
" فصاعداً ".
وأراه هو المحفوظ؛ فقد أخرجه سائر الأئمة في كتبهم عن بضعة عشر حافظاً
كلهم عن سفيان؛ بدون هذه الزيادة. حتى لقد ألقي في نفسي أنها خطأ من بعض
النساخ لهذا الكتاب؛ لولا أني رأيتها في "مختصر السنن " للمنذري.
وإليك أسماءَ الرواة الذين وقفت على روايتهم للحديث بدون الزيادة، مع ذكر
مصادرها:
1- الإمام أحمد في "مسنده " (5/314) : ثنا سفيان بن عيينة.
2- الحميدي في "مسنده " (1/191/386) : ثنا سفيان... به.
ومن طريقه: أبو عوانة (2/124) .
3- علي بن المديني: حدثنا سفيان... به: أخرجه البخاري عنه (2/125) .
4- الحجاج بن مِنْهال: ثنا سفيان... به: أخرجه البخاري في "جزء القراءة" (4) .
5- أبو بكر بن أبي شيبة.
6- عمرو بن الناقد.! جميعاً: مسلم (2/8- 9) .
7- إسحاق بن إبراهيم.
ثلاثتهم عن سفيان ... به : أخرجه عنهم جميعا عن مسلم (2/8-9)
8- محمد بن منصور عنه: أخرجه النسائي (1/145) عنه.
9- محمد بن يحيى بن أبي عمر المكي العدني
10- علي بن حجر.
أخرجه الترمذي (2/25) .
11 - هشام بن عمار.
12- سهل بن أبي سهل
13- إسحاق بن إسماعيل.
أخرجه ابن ماجه (1/276) عنهم قالوا: ثنا
سفيان... به.
14- سَوَّار بن عبد الله العنبري.
15- عبد الجبار بن العلاء.
16- محمد بن عمرو بن سليمان.
17- زياد بن أيوب.
18- الحسن بن محمد الزعفراني.
أخرجه الدارقطني (122) عن ابن
صاعد عنهم جميعاً: ثنا سفيان.
واخرجه البيهقي (2/38) عن الزعفراني وحده
قلت: فكل هؤلاء- وفيهم كبار الأئمة والحفاظ- لم يقولوا عن سفيان:
" فصاعداً "! فذلك يدل دلالة قاطعة على أن هذه الزيادة غير محفوظة عنه؛ فلا
أدري ممن الوهم؟ آمِنْ بعض رواة كتاب "السنن "؟! أم من المؤلف؟! أم من شيخيه:
قتيبة بن سعيد وابن السرح؟ ا والاحتمال الأول هو الأقرب، ثم... وثم...
نعم؛ قد روى هذه الزيادة: معمر عن الزهري، وهي معروفة به:
أخرجه مسلم وأبو عوانة والنسائي، والبيهقي (2/374) ، وأحمد (4/322)
من طرق عن عبد الرزاق عنه. وقد أشار البخاري إلى أنها شاذة، فقال في "جزء
القراءة" (ص 4) :
" وعامة الثقات لم تتابع معمراً في قوله: "فصاعداً"؛ مع أنه قد أثبت فاتحة
الكتاب. وقوله: "فصاعداً " غير معروف ".
قلت: ومن هؤلاء الثقات الذين أشار إليهم البخاري: صالح بن كَيْسَان: عنده
في "الجزء" (3) ، وكذا مسلم، وأبي عوانة، وأحمد (4/421) .
ويزيد بن يونس: عندهم جميعاً- ما عدا أحمد-، وعند البيهقي أيضا
(2/61) ، وكذا الدارمي (1/283) . وذهل الحافظ رحمه الله تعالى في "الفتح "؛
فلم يَعز هذه الزيادة لسلم؛ خلافاً لصنيعه في "التلخيص "، وقال:
" قال ابن حبان: تفرد بها معمر عن الزهري ".
قلت: لكن يشهد لها حديث أبي سعيد التقدم (777) ، وكذا حديث أبي
هريرة بعده.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ یا کچھ زائد قراءت نہیں پڑھتا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) نماز صحیح ہونے کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں: ۱۔صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا۔ ۲۔سورۂ فاتحہ سے زائد بھی پڑھنا۔ گویا صرف فاتحہ فرض ہے، زائد قراءت فرض نہیں، اس کے بغیر بھی نماز ہوجائے گی۔ یہ محدثین کا مسلک ہے۔ احناف کے نزدیک فاتحہ پڑھنا واجب ہے ا ور فاتحہ کے بعد اور سورت پڑھنا فرض ہے، یعنی وہ فرض اور واجب میں فرق کرتے ہیں۔ احناف کے نزدیک فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ناقص ہوگی جس کی تلافی سجدۂ سہو سے کی جائے گی جب کہ محدثین کے نزدیک سورۂ فاتحہ ہر ایک کے لیے ضروری ہے، مقتدی کی صرف فاتحہ والی نماز ہوگی کیونکہ اس کے لیے جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ سے زائد پڑھنا منع ہے اور فاتحہ سے زائد والی نماز امام اور منفرد کی ہوگی۔ دونوں نمازیں بالکل صحیح ہیں۔ معلوم ہوا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہیے تاکہ وہ اس حدیث پر عمل کرسکے۔ (2) بعض لوگوں نے اس حدیث کے غلط معنیٰ کیے ہیں کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور زائد نہیں پڑھتا۔ گویا فاتحہ کے بغیر بھی نماز نہیں اور فاتحہ سے زائد کے بغیر بھی نماز نہیں۔ دونوں فرض ہیں مگر یہ معنیٰ کرنا لغت عربیہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ اسی قسم کی ایک اور حدیث ہے جس سے معنیٰ مزید واضح ہوگا: [لاتُقطعُيدُ السارقِ إلا في ربعِ دينارٍ فصاعدًا](صحیح البخاري، الحدود، حدیث:۶۷۸۹، وصحیح مسلم، الحدود، حدیث:۱۶۸۴)”چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد کے بغیر نہیں کاٹا جائے گا۔“ یعنی ہاتھ کاٹنے کے لیے چوتھائی دینار کی چوری کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی کاٹیں گے نہ ہو تب بھی۔ اس طرح متعلقہ حدیث کے معنی ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے سورت فاتحہ کی قراءت کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی نماز ہوجائے گی، نہ ہو تب بھی۔ زائد سے اس وقت جب نمازی منفرد یا امام ہو اور صرف فاتحہ سے اس وقت جب نمازی مقتدی ہو۔ (3) سورۂ فاتحہ کی قراءت ہر رکعت میں ضروری ہے، نہ کہ ساری نماز میں ایک دفعہ۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ کو نماز سکھانے کے بعد کہا تھا:[افعلذلكفيصلاتِك كلِّها] (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:۷۵۷) ”یہ کام اپنی ساری نماز(ہررکعت) میں کر۔“ احناف نے بغیر کسی دلیل کے فرض نماز کی آخری دورکعات میں قراءت فاتحہ یا مطلق قراءت کو ضروری قرار نہیں دیا بلکہ کوئی نمازی حتیٰ کہ امام بھی آخری دورکعات میں (رباعی نماز میں) قراءت کے بجائے خاموش کھڑا رہے تو اس کی نماز احناف کے نزدیک قطعاً صحیح ہوگی۔ حیرانی کی بات ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے اتنا بڑا خطرہ مول لیا گیا! (4) ”نماز نہیں ہوتی۔“ احناف معنیٰ کرتے ہیں کہ ”کامل نہیں ہوتی“ حالانکہ اگر یہ معنیٰ کریں تو لازم آئے گا کہ فاتحہ واجب بھی نہ ہو کیونکہ کمال کی نفی تو سنت کے ترک سے ہوتی ہے جب کہ فاتحہ پڑھنا احناف کے نزدیک واجب ہے، سوائے مقتدی کے کہتے ہیں: مطلق قراءت قرآن فرض ہے، فاتحہ واجب ہے۔ گر کوئی ا ور سورت پڑھ لے، فاتحہ نہ پڑھے تو نماز ہوجائے گی مگر سجدۂ سہو لازم ہوگا کیونکہ قرآن مجید میں تو آخری قعدہ اور تشہد کا بھی ذکر نہیں تو وہ فرض بھی نہ ہونا چاہیے، نیز یہ آیت کون سی نماز کی قراءت کے بارے میں اتری ہے؟ پھر یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے۔ اس کے ابہام کو دور کرتی ہے۔ اس کے اشکال کو واضح کرتی ہے۔ اگر اس قسم کے واضح الفاظ قرآن کی تفسیر نہیں بن سکتے تو حدیث کو تفسیر کہنے کا کیا فائدہ؟ غور فرمائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ مزید نہ پڑھے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے چوری کی سزا قطع «ید» (ہاتھ کاٹنے) کے سلسلے میں صحیح حدیث میں ہے «لاتُقطعُاليدُ إلّا في ربعِ دينارٍ فصاعدًا»”چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی چوری پر ہی ہاتھ کاٹا جائے گا۔“ یعنی چوتھائی دینار سے کم پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، لہٰذا حدیث میں وارد اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ ”اس شخص کی صلاۃ نہیں ہو گی جس نے سورۃ فاتحہ سے کم پڑھا۔“
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ubadah bin As-Samit that: The Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)said: "There is no Salah for one who does not recite Fatihatil-Kitab".