باب: امام کے پیچھے اس نماز میں قراءت نہ کرنا جس میں امام بلند آواز سےپڑھے
)
Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Not reciting behind the imam in a rak'ah where he recites out loud)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
919.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک نماز سے فارغ ہوئے اور جس میں آپ نے بلند آواز سے قراءت کی تھی تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ابھی کچھ پڑھا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”میں بھی کہتا تھا، کیا وجہ ہے کہ مجھے قرآن مجید پڑھنے میں دقت ہورہی ہے؟“ اس (امام زہری) نے کہا: تو جب انھوں نے آپ کی یہ بات سنی اس کے بعد وہ اس نماز میں قراءت کرنے سے رک گئے جس میں رسول اللہ ﷺ بلند آواز سے قراءت کرتے تھے۔
تشریح:
اس روایت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار مقتدی کے اونچا پڑھنے پر تھا کیونکہ امام کو دقت تبھی پیش آئے گی جب کسی کی گن گن اس تک پہنچتی ہوگی۔ اگر وہ آہستہ پڑھے، اس کی آواز کسی کو نہ سنائی دے تو اس سے کسی کو کیا خلجان یا منازعت ہوسکتی ہے؟ البتہ جہری نماز میں مقتدیوں کو فاتحہ سے زائد پرھنے سے صراحتاً روکا گیا ہے، لہٰذا جہری نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ سے زائد نہیں پڑھ سکتا، نہ جہراً نہ سراً۔ آخری قول سے مراد بھی سورۂ فاتحہ سے زائد قراءت ہے جس سے لوگ رک گئے۔ باقی رہی سورۂ فاتحہ تو خود راویٔ حدیث میں اس کے پڑھنے کا فتویٰ دیتے تھے۔ (دیکھیے، حدیث:۹۱۰) یاد رہے کہ یہ آخری قول امام زہری کا ہے جو صغار تابعین میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر، امام ابن قیم اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے امام بخاری، امام مالک، امام ابوداود، امام ترمذی اور امام بیہقی رحمہ اللہ جیسے عظیم محدثین اور ائمہ، جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں کہ یہ امام زہری کا اپنا کلام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں۔ دیکھیے: (التلخیص الجبیر، رقم:۳۴۴، عون المعبود:۳؍۵۰۔۵۲)واللہ أعلم۔ انھوں نے یہ بات : [فانتھی الناس عن القراءۃ۔۔۔الخ] کس سے سنی؟ یہ صراحت نہیں، لہٰذا یہ مرسل ہے اور [مراسیل الزھری کالریح] ”زہری کی مرسل روایات ہوا کی طرح ہیں“ لہٰذا ان کا یہ قول بھی ہوا کی طرح ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين.
والحديث أخرجه أبو داود الطيالسي في "مسنده " (404- ترتيبه) : حدثنا
شعبة... به.
وأخرجه مسلم (2/11) ، وأبو عوانة (2/132) ، والبخاري في "جزئه " (21) ،
والنسائي (1/146) ، وأحمد (4/426 و 441) من طرق عن شعبة... به.
وأخرجه البيهقي (2/162) من طريق المصنف.
ومن طريق أخرى عن أبي الوليد وعن أبي داود الطياليسيين.
ثم أخرجه مسلم وأبو عوانة، وأحمد (4/426 و 431) من طريق سعيد بن
أبي عروبة عن قتادة... به.
وأبو عوانة والبخاري في "جزئه " (56) ، والنسائي من طرق أخرى عن
قتادة... به.
وتابعه خالد الحَذأء عن زرارة بن أوفى... به.
أخرجه أحمد (4/433) .
صحيح أبي داود ( 781)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک نماز سے فارغ ہوئے اور جس میں آپ نے بلند آواز سے قراءت کی تھی تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ابھی کچھ پڑھا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”میں بھی کہتا تھا، کیا وجہ ہے کہ مجھے قرآن مجید پڑھنے میں دقت ہورہی ہے؟“ اس (امام زہری) نے کہا: تو جب انھوں نے آپ کی یہ بات سنی اس کے بعد وہ اس نماز میں قراءت کرنے سے رک گئے جس میں رسول اللہ ﷺ بلند آواز سے قراءت کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار مقتدی کے اونچا پڑھنے پر تھا کیونکہ امام کو دقت تبھی پیش آئے گی جب کسی کی گن گن اس تک پہنچتی ہوگی۔ اگر وہ آہستہ پڑھے، اس کی آواز کسی کو نہ سنائی دے تو اس سے کسی کو کیا خلجان یا منازعت ہوسکتی ہے؟ البتہ جہری نماز میں مقتدیوں کو فاتحہ سے زائد پرھنے سے صراحتاً روکا گیا ہے، لہٰذا جہری نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ سے زائد نہیں پڑھ سکتا، نہ جہراً نہ سراً۔ آخری قول سے مراد بھی سورۂ فاتحہ سے زائد قراءت ہے جس سے لوگ رک گئے۔ باقی رہی سورۂ فاتحہ تو خود راویٔ حدیث میں اس کے پڑھنے کا فتویٰ دیتے تھے۔ (دیکھیے، حدیث:۹۱۰) یاد رہے کہ یہ آخری قول امام زہری کا ہے جو صغار تابعین میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر، امام ابن قیم اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے امام بخاری، امام مالک، امام ابوداود، امام ترمذی اور امام بیہقی رحمہ اللہ جیسے عظیم محدثین اور ائمہ، جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں کہ یہ امام زہری کا اپنا کلام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں۔ دیکھیے: (التلخیص الجبیر، رقم:۳۴۴، عون المعبود:۳؍۵۰۔۵۲)واللہ أعلم۔ انھوں نے یہ بات : [فانتھی الناس عن القراءۃ۔۔۔الخ] کس سے سنی؟ یہ صراحت نہیں، لہٰذا یہ مرسل ہے اور [مراسیل الزھری کالریح] ”زہری کی مرسل روایات ہوا کی طرح ہیں“ لہٰذا ان کا یہ قول بھی ہوا کی طرح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز سے جس میں آپ نے زور سے قرآت فرمائی تھی سلام پھیر کر پلٹے تو پوچھا: ”کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرآت کی ہے؟“ تو ایک شخص نے کہا: جی ہاں! اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ”آج بھی میں کہہ رہا تھا کہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے۔“ زہری کہتے ہیں: جب لوگوں نے یہ بات سنی تو جن نمازوں میں رسول اللہ ﷺ زور سے قرآت فرماتے تھے ان میں قرآت سے رک گئے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ قول کہ ”جب لوگوں نے … “ زہری کا ہے، ائمہ حدیث نے اس کی تصریح کر دی ہے، اور زہری تابعی صغیر ہیں، وہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، ان کی یہ روایت مرسل ہے، اور مرسل ضعیف کی قسموں میں سے ہے، یا اس کا یہ معنی ہے کہ لوگ زور سے قرات کرتے تھے، اسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلجان ہوتا تھا، اور خلجان کا واقعہ جہری سری دونوں میں پیش آیا ہے (جیسا کہ حدیث رقم : ۹۱۸ میں گزرا) اس واقعہ کے بعد لوگ زور سے قرات کرنے سے رک گئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Imran bin Husain that: The Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)prayed Zuhr or Asr, and a man was reciting behind him. When he had finished he said: "Which one of you recited: Glorify the Name of your Lord, the Most High"? A man among the people said: "I did, but I did not intend anything but good". The Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)said: "I realized that some of you were disputing with me over it".