باب: امام کے پیچھے مقتدی کو چھینک آئے تو وہ کیا کہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: What a person should say if he sneezes behind the Imam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
931.
حضرت رفاعہ بن رافع ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ مجھے چھینک آئی تو میں نے (اونچی آواز میں) کہہ دیا: [الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى] ”تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، بہت زیادہ تعریف، پاکیزہ اور بابرکت (یعنی باقی رہنے والی) جس قدر ہمارا رب پسند کرے اور جس پر راضی اور خوش ہو۔“ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”کس آدمی نے نماز میں کلام کیا تھا؟“ کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر آپ نے دوبارہ فرمایا: ”کس آدمی نے نماز میں کلام کیا تھا“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ”تو نے کیسے کہا تھا؟“ میں نے کہا: میں نے کہا تھا: [الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى] نبی ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تیس سے زائد فرشتے اس کلمے کی طرف لپکے تھے کہ کون انھیں لے کر اوپر چڑھتا ہے؟“
تشریح:
(1) چھینک مارنے اور رکوع سے سر اٹھانے کا وقت ایک ہی تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: ۷۹۹) (2) چھینک بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس سے دماغ کھل جاتا ہے۔ طبیعت چست ہو جاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے صرف الحمدللہ کہنا کافی ہے۔ مزید اضافہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ اس روایت میں ہے۔ (3) پہلی دفعہ جواب نہ دینا، اس ڈر کی بنا پر تھا کہ شاید میں نے غلطی کی ہے۔ (4) اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کے دوران میں چھینک آنے پر جہراً الحمدللہ کہنا بھی درست ہے۔ واللہ أعلم۔ (5) جب امام اپنے مقتدیوں میں کوئی نئی چیز محسوس کرے تو اس کے متعلق دریافت کرے اور مقتدیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرے۔ (6) نماز میں چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے تو اس کا جواب نہیں دیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ میں سے کسی نے اس آدمی کا جواب نہیں دیا تھا۔ اگر کوئی شخص جواب دے گا تو اس کی نمازباطل ہو جائے گی۔ واللہ اعلم۔ (7) اس حدیث مبارکہ سے مذکورہ ذکر کی فضیلت بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ ذکر بہت پسند ہے۔
حضرت رفاعہ بن رافع ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ مجھے چھینک آئی تو میں نے (اونچی آواز میں) کہہ دیا: [الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى] ”تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، بہت زیادہ تعریف، پاکیزہ اور بابرکت (یعنی باقی رہنے والی) جس قدر ہمارا رب پسند کرے اور جس پر راضی اور خوش ہو۔“ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”کس آدمی نے نماز میں کلام کیا تھا؟“ کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر آپ نے دوبارہ فرمایا: ”کس آدمی نے نماز میں کلام کیا تھا“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ”تو نے کیسے کہا تھا؟“ میں نے کہا: میں نے کہا تھا: [الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى] نبی ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تیس سے زائد فرشتے اس کلمے کی طرف لپکے تھے کہ کون انھیں لے کر اوپر چڑھتا ہے؟“
حدیث حاشیہ:
(1) چھینک مارنے اور رکوع سے سر اٹھانے کا وقت ایک ہی تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: ۷۹۹) (2) چھینک بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس سے دماغ کھل جاتا ہے۔ طبیعت چست ہو جاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے صرف الحمدللہ کہنا کافی ہے۔ مزید اضافہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ اس روایت میں ہے۔ (3) پہلی دفعہ جواب نہ دینا، اس ڈر کی بنا پر تھا کہ شاید میں نے غلطی کی ہے۔ (4) اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کے دوران میں چھینک آنے پر جہراً الحمدللہ کہنا بھی درست ہے۔ واللہ أعلم۔ (5) جب امام اپنے مقتدیوں میں کوئی نئی چیز محسوس کرے تو اس کے متعلق دریافت کرے اور مقتدیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرے۔ (6) نماز میں چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے تو اس کا جواب نہیں دیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ میں سے کسی نے اس آدمی کا جواب نہیں دیا تھا۔ اگر کوئی شخص جواب دے گا تو اس کی نمازباطل ہو جائے گی۔ واللہ اعلم۔ (7) اس حدیث مبارکہ سے مذکورہ ذکر کی فضیلت بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ ذکر بہت پسند ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
رفاعہ بن رافع ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، تو مجھے چھینک آ گئی، تو میں نے «الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى» ”اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے“ کہا، تو جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے، اور سلام پھیر کر پلٹے تو آپ نے پوچھا: ”نماز میں کون بول رہا تھا؟ “تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے دوسری بار پوچھا: ”نماز میں کون بول رہا تھا؟ “تو رفاعہ بن رافع بن عفراء ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! میں تھا، آپ ﷺ نے پوچھا: ”تم نے کیسے کہا تھا؟“ انہوں نے کہا: میں نے یوں کہا تھا: «الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى» ”اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے“ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے لے کر کون اوپر چڑھے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that: The Messenger of Allah (ﷺ) said: "If any one of you says: 'Amin' and the angels in Heaven say Amin, and the one coincides with the other, his previous sins will be forgiven".