Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Collection of what was narrated concerning the Quran)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
935.
حضرت ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: (لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ) (القیمة: ۱۷،۱۶:۷۵) ”اے نبی! اس (وحی) کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ یقیناً اسے جمع کرنا اور پڑھا دینا ہماری ذمے داری ہے۔“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ قرآن اترتے وقت (اسے یاد کرنے کے لیے) اپنے ہونٹوں کو ہلایا کرتے تھے اور اس سے آپ کو کافی تکلیف ہوتی تھی۔ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ ……… الآیة) یعنی اسے آپ کے سینے میں محفوظ کر دینا اور آپ کا اسے (بعینہٖ) پڑھنا (یعنی آپ سے بعینہٖ پڑھوانا) ہماری ذمے داری ہے۔ پھر اس فرمان الٰہی: (فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ) القیمة ۱۸:۷۵) ’’پھر جب ہم پڑھ چکیں تو آپ ہمارے پڑھنے کی پیروی کریں۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: خاموشی سے کان لگا کر سنتے رہیں۔ اس کے بعد جب جبریل ؑ رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر قرآن سناتے تو آپ توجہ سے سنتے رہتے۔ جب وہ چلے جاتے تو آپ (وعدۂ الٰہی کے مطابق) بالکل اسی طرح پڑھتے جیسے فرشتے نے پڑھا ہوتا تھا۔
تشریح:
(1) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ساتھ پڑھنا اس خطرے کے پیش نظر تھا کہ مجھے کچھ بھول نہ جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا ذمہ لے لیا تو آپ نے ساتھ ساتھ پڑھنا چھوڑ دیا۔ (2) حدیث میں ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے جب کہ قرآن مجید میں زبان کی حرکت کا۔ دراصل زبان کی حرکت کا علم ہونٹوں کے ہلنے سے ہوتا ہے، نیز مراد پڑھنا ہے اور پڑھتے وقت ہونٹ بھی ہلتے ہیں اور زبان بھی۔ مختصر صحیح البخاری (اردو) مطبوعہ دارالسلام میں اس حدیث کے فوائد کچھ یوں ہیں: ”اس حدیث میں قرآن حکیم کے متعلق تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے: پہلا مرحلہ آپ کے سینۂ مبارک میں محفوظ طریقے سے اتارنا ہے، دوسرا مرحلہ قلب مبارک میں جمع شدہ قرآن کو زبان کے ذریعے سے پڑھنے کی توفیق دینا اور آخری مرحلہ قرآن کے مجملات کی تشریح اور مشکلات کی توضیح ہے جو احادیث (صحیحہ) کی شکل میں موجود ہے۔ ان تمام مراحل کی ذمے داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔“ (عون الباري: ۱:۵۸) یہ یاد رہے کہ بخاری شریف کی حدیث میں نسائی شریف کی حدیث کی نسبت کچھ الفاظ زیادہ ہیں، لہٰذا اس مناسبت سے یہ تشریح کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے وقت کبھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہ وحی کے بوجھ کی وجہ سے تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلا ثَقِيلا﴾(المزمل: ۵:۷۳)”یقینا ہم جلد آپ پر بھاری بات ڈالیں گے۔“ (3) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت خود اٹھائی تھی کہ انھیں قرآن بھولے گا نہیں اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ غور سے سنتے۔ جب جبرئیل علیہ السلام اپنی قراءت مکمل کرلیتے اور واپس چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اسی طرح پڑھ کر سناتے جس طرح جبرئیل نے آپ کو پڑھایا ہوتا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسَى﴾ (الاعلیٰ: ۶:۸۷)”ہم جلد آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ بھولیں گے نہیں۔“ (5) اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی قرآن کریم کو حفظ کرنا چاہے، وہ اللہ کی مدد اور اس کے فضل کے بغیر حفظ نہیں کرسکتا۔
حضرت ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: (لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ) (القیمة: ۱۷،۱۶:۷۵) ”اے نبی! اس (وحی) کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ یقیناً اسے جمع کرنا اور پڑھا دینا ہماری ذمے داری ہے۔“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ قرآن اترتے وقت (اسے یاد کرنے کے لیے) اپنے ہونٹوں کو ہلایا کرتے تھے اور اس سے آپ کو کافی تکلیف ہوتی تھی۔ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ ……… الآیة) یعنی اسے آپ کے سینے میں محفوظ کر دینا اور آپ کا اسے (بعینہٖ) پڑھنا (یعنی آپ سے بعینہٖ پڑھوانا) ہماری ذمے داری ہے۔ پھر اس فرمان الٰہی: (فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ) القیمة ۱۸:۷۵) ’’پھر جب ہم پڑھ چکیں تو آپ ہمارے پڑھنے کی پیروی کریں۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: خاموشی سے کان لگا کر سنتے رہیں۔ اس کے بعد جب جبریل ؑ رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر قرآن سناتے تو آپ توجہ سے سنتے رہتے۔ جب وہ چلے جاتے تو آپ (وعدۂ الٰہی کے مطابق) بالکل اسی طرح پڑھتے جیسے فرشتے نے پڑھا ہوتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ساتھ پڑھنا اس خطرے کے پیش نظر تھا کہ مجھے کچھ بھول نہ جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا ذمہ لے لیا تو آپ نے ساتھ ساتھ پڑھنا چھوڑ دیا۔ (2) حدیث میں ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے جب کہ قرآن مجید میں زبان کی حرکت کا۔ دراصل زبان کی حرکت کا علم ہونٹوں کے ہلنے سے ہوتا ہے، نیز مراد پڑھنا ہے اور پڑھتے وقت ہونٹ بھی ہلتے ہیں اور زبان بھی۔ مختصر صحیح البخاری (اردو) مطبوعہ دارالسلام میں اس حدیث کے فوائد کچھ یوں ہیں: ”اس حدیث میں قرآن حکیم کے متعلق تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے: پہلا مرحلہ آپ کے سینۂ مبارک میں محفوظ طریقے سے اتارنا ہے، دوسرا مرحلہ قلب مبارک میں جمع شدہ قرآن کو زبان کے ذریعے سے پڑھنے کی توفیق دینا اور آخری مرحلہ قرآن کے مجملات کی تشریح اور مشکلات کی توضیح ہے جو احادیث (صحیحہ) کی شکل میں موجود ہے۔ ان تمام مراحل کی ذمے داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔“ (عون الباري: ۱:۵۸) یہ یاد رہے کہ بخاری شریف کی حدیث میں نسائی شریف کی حدیث کی نسبت کچھ الفاظ زیادہ ہیں، لہٰذا اس مناسبت سے یہ تشریح کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے وقت کبھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہ وحی کے بوجھ کی وجہ سے تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلا ثَقِيلا﴾(المزمل: ۵:۷۳)”یقینا ہم جلد آپ پر بھاری بات ڈالیں گے۔“ (3) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت خود اٹھائی تھی کہ انھیں قرآن بھولے گا نہیں اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ غور سے سنتے۔ جب جبرئیل علیہ السلام اپنی قراءت مکمل کرلیتے اور واپس چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اسی طرح پڑھ کر سناتے جس طرح جبرئیل نے آپ کو پڑھایا ہوتا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسَى﴾ (الاعلیٰ: ۶:۸۷)”ہم جلد آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ بھولیں گے نہیں۔“ (5) اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی قرآن کریم کو حفظ کرنا چاہے، وہ اللہ کی مدد اور اس کے فضل کے بغیر حفظ نہیں کرسکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے قول: «لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ» (القیامة: ۱۶- ۱۷) کی تفسیر میں مروی ہے، کہ نبی اکرم ﷺ وحی اترتے وقت بڑی تکلیف برداشت کرتے تھے، اپنے ہونٹ ہلاتے رہتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے نبی! آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، کیونکہ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے“ ۱؎ ، ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ «جمعه» کے معنی: اس کا آپ ﷺ کے سینہ میں بیٹھا دینا ہے، اور «قُرْآنَهُ» کے معنیٰ اسے اس طرح پڑھوا دینا ہے کہ جب آپ چاہیں اسے پڑھنے لگ جائیں «فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ» میں «فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ» کے معنیٰ ہیں: آپ اسے غور سے سنیں، اور چپ رہیں، چنانچہ جب جبرائیل ؑ آپ کے پاس وحی لے کر آتے تو آپ بغور سنتے تھے، اور جب روانہ ہو جاتے تو آپ اسے پڑھتے جس طرح انہوں نے پڑھایا ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی یہ ہمارے ذمہ ہے کہ اسے آپ کے دل میں بٹھا دیں، اور آپ اسے پڑھنے لگیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah (RA) that: Al-Harith bin Hisham asked the Messenger of Allah (ﷺ): 'How does the Revelation come to you'? He said: 'Like the ringing of a bell, and this is the hardest on me. When it departs I remember what he said. And sometimes the Angel appears to me in the form of a man and speaks to me, and I remember what he said". Aishah said: "I saw him when the Revelation came to him on a very cold day, and his forhead was dripping with sweat".