تشریح:
(1) ’’وضو کا پانی کھڑے ہوکر پیا‘‘ بعض اہل علم وضو وغیرہ کا بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پینا مسنون سمجھتے ہیں جب کہ بعض علماء سمجھتے ہیں کہ کھڑے ہوکر پینا صرف بیان جواز کے لیے تھا، اسے عادت نہ بنایا جائے۔ اور جن احادیث میں کھڑے ہوکر پانی پینے سے سختی سے روکا گیا ہے تو وہ اس نہی (ممانعت) کو تنزیہہ پر محمول کرتے ہیں، یعنی بہتر ہے کہ بیٹھ کر پیا جائے لیکن اگر کبھی کبھار کھڑے کھڑے بھی پانی پی لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ بھی جائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ بیان جواز سے ان کی یہی مراد ہے۔
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس مسئلے میں وارد مختلف متعارض احادیث کا جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں: [بل الصواب أن النھي فیھا محمول علی التنزيه و شربه قائما لبیان الجواز] ’’درست بات یہ ہے کہ ان احادیث میں موجود ممانعت تنزیہہ پر محمول ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھڑے ہوکر پانی پینا بیان جواز کے لیے تھا۔‘‘ دیکھیے: (فتح الباري: ۱۰۴/۱۰، تحت حدیث: ۵۶۱۷) واللہ أعلم۔