Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: A Description Of The Head)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
98.
حضرت یحیی مازنی سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم ؓ سے گزارش کی اور آپ عمرو بن یحیی کے نانا تھے: کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وضو کیسے کرتے تھے؟ حضرت عبداللہ نے کہا، ہاں۔ پھرآپ نے وضو کا پانی منگوایا اور اپنے دائیں ہاتھ پر ڈالا اور دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے، پھر تین دفعہ کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنے دونوں بازو دو دو مرتبہ کہنیوں سمیت دھوئے۔ پھر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا اس طرح کہ دونوں ہاتھ آگے پیچھے لائے، مسح کی ابتدا سر کے اگلے حصے سے کی، پھر ہاتھوں کو اپنی گدی کی طرف لے گئے، پھر واپس لائے حتیٰ کہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے مسح کی ابتدا کی تھی، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
تشریح:
اس حدیث میں سر کے مسح کا تفصیلی ذکر ہے کہ پورے سر کا مسح کیا جائے گا۔ آپ کے وضو کی حدیث میں پورے سر کے مسح ہی کا ذکر ہے، اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ نے پورے سر کا مسح فرض قرار دیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ احناف نے چوتھائی سر (کسی بھی جانب) کے مسح کو کافی کہا ہے مگر دلائل کی رو سے یہ موقف کمزور ہے۔ اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال کہ ’’چند بالوں پر بھی مسح ہو جائے تو کافی ہے۔‘‘ لیکن احناف اور شوافع کا موقف ان صریح احادیث کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا لہٰذا مکمل سر کا مسح کرنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وأبو عوانة في
"صحاحهم ". وقال الترمذي: إنه أصح شيء في الباب وأحسن؛ يعني: باب
المسح على الرأس) .
إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك.
وهذا إسناد صحيح على شرطهما؛ وقد أخرجاه.
والحديث في "موطأً مالك " (1/39- 49) ، وعنه أخرجه الشيخان، وأبو عوانة
والنسائي والترمذي وابن ماجه، وابن خزيمة (157) ، والبيهقي، وأحمد (4/38) ،
ومحمد (47) كلهم عن مالك... به، وقال الترمذي: إنه
" أصح شيء في الباب وأحسن ".
وله عن عمرو بن يحيى طرق أخرى، سيأتي في الكتاب بعضها.
(تنبيه) : روى سفيان بن عيينة هذا الحديث مختصراً عن عمرو بن يحيى...
به وقال:
وغسل رجليه مرتين.
أخرجه الترمذي (1/66- تحقيق أحمد شاكر) . وقال المحقق:
" قال الشارح: أخرجه البخاري ومسلم مطولاً "!
فأقول: أولاً: روايتهما كرواية المؤلف؛ ليس فيها: مرتين.
ثانياً: هذه الزيادة شاذة؛ لخالفة ابن عيينة لرواية مالك ومن وافقه من
أصحاب عمرو بن يحيى المازني؛ وهم: وهيب بن خالد بن عجلان، وسليمان بن
بلال، وخالد بن عبد الله- عند الشيخين-، وعبد العزيز بن عبد الله بن أبي
سلمة الماجشون- عند أحمد (4/40) -؛ فكلهم لم يذكر في الرِّجلين:
مرتين.
وأيضا؛ فابن عيينة كان يضطرب فيها:
فمرة يذكرها ، كما في رواية الترمذي هذه، وعي عند ابن خزيمة أيضا (172) ،
وابن الجارود (70) .
وتارة لا يذكرها، وهي رواية الحميدي في " مسنده " (417) .
وتارة كان يذكرها في المسح فيقول: ومسح برأسه مرتين: رواه أحمد (4/40) ؛
وقال: سمعته من سفيان ثلاث مرات يقول: غسل رجليه مرتين. وقال مرة: مسح
برأسه مرة. وقال مرتين: مسح برأسه مرتين.
وهذا اضطراب شديد من سفيان؛ يدل على أنه لم يحفظ هذا الحرف من
الحديث، ولم يضبطه.
(تنبيه آخر) : زعم الحافظ في "الفتح" (1/291) : أنّ مالكاً خالف الحفاظ في
قوله في اليدين: مرتين؛ وهم وهيب ومن ذكر معه آنفاً فقالوا: ثلاثاً!
وهو وهم منه رحمه الله؛ فإنهم جميعاً قالوا: مرتين؛ كما قال مالك.
نعم؛ رواه مسلم بهذا اللفظ: ثلاثاً؛ من طريق أخرى عن عبد الله بن زيد،
وهي عند أحمد (4/41) .
فلعلها سبب الوهم، وإسناده الأ ول أصح. والله أعلم.
حضرت یحیی مازنی سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم ؓ سے گزارش کی اور آپ عمرو بن یحیی کے نانا تھے: کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وضو کیسے کرتے تھے؟ حضرت عبداللہ نے کہا، ہاں۔ پھرآپ نے وضو کا پانی منگوایا اور اپنے دائیں ہاتھ پر ڈالا اور دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے، پھر تین دفعہ کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنے دونوں بازو دو دو مرتبہ کہنیوں سمیت دھوئے۔ پھر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا اس طرح کہ دونوں ہاتھ آگے پیچھے لائے، مسح کی ابتدا سر کے اگلے حصے سے کی، پھر ہاتھوں کو اپنی گدی کی طرف لے گئے، پھر واپس لائے حتیٰ کہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے مسح کی ابتدا کی تھی، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں سر کے مسح کا تفصیلی ذکر ہے کہ پورے سر کا مسح کیا جائے گا۔ آپ کے وضو کی حدیث میں پورے سر کے مسح ہی کا ذکر ہے، اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ نے پورے سر کا مسح فرض قرار دیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ احناف نے چوتھائی سر (کسی بھی جانب) کے مسح کو کافی کہا ہے مگر دلائل کی رو سے یہ موقف کمزور ہے۔ اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال کہ ’’چند بالوں پر بھی مسح ہو جائے تو کافی ہے۔‘‘ لیکن احناف اور شوافع کا موقف ان صریح احادیث کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا لہٰذا مکمل سر کا مسح کرنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یحییٰ سے روایت ہے کہ انہوں نے (ان کے باپ عمارہ نے) عبداللہ بن زید بن عاصم ؓ سے کہا- (وہ عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں) کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کیسے وضو کرتے تھے؟ عبداللہ بن زید ؓ نے کہا: جی ہاں! چنانچہ انہوں نے پانی منگایا، اور اپنے دائیں ہاتھ پر انڈیل کر اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے، پھر تین بار کلی کی، اور ناک میں پانی ڈالا، پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ کہنیوں تک دھوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا، ان کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے، اپنے سر کے اگلے حصہ سے (مسح) شروع کیا، پھر انہیں اپنی گدی تک لے گئے، پھر انہیں واپس لے آئے یہاں تک کہ اسی جگہ لوٹا لائے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Amr bin Yahya that his father said to ‘Abdullah bin Zaid bin ‘Asim (RA) — who was one of the Companions of the Prophet (ﷺ) and the grandfather of ‘Amr bin Yahya “Can you show me how the Messenger of Allah (ﷺ) used to perform Wudu? ‘ Abdullah bin Zaid (RA) said: “Yes. He called for (water for) Wudu and poured some onto his right hand, washing his hands twice. Then he rinsed his mouth and nose three times, then washed his face three times, then he washed his hands twice, up to the elbows. Then he wiped his head with his hands, back and forth, starting at the front of his head and moving his hands to the nape of his neck, then bringing them back to the place he started. Then he washed his feet.” (Sahih)