Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: The Number Of Times The Head Is Wiped)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
99.
حضرت عبداللہ بن زید ؓ جنھیں خواب میں اذان دکھلائی گئی تھی، سے منقول ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے دیکھا، چنانچہ آپ نے اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا اور دو بازو دو دفعہ دھوئے۔ پاؤں کو بھی دو مرتبہ دھویا اور اپنے سر کا مسح دو دفعہ کیا۔
تشریح:
(1) خواب میں اذان دکھلائے جانے کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ ویسے یہ عبداللہ بن زید اذان والے نہیں جنھیں اذان دکھائی گئی تھی، وہ عبداللہ بن زید بن عبد ربہ ہیں اور یہ عبداللہ بن زید بن عاصم ہیں۔ یہاں پر (راویٔ حدیث) سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی ہے۔ اس کی وضاحت خود امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمائی ہے۔ دیکھیے: (سنن النسائي، الاستسقاء، حدیث: ۱۵۰۶، و صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: ۱۰۱۲) (2) ’’سر کا مسح دو دفعہ کیا۔‘‘ اس سے مراد ایک دفعہ دونوں ہاتھوں کو آگے سے شروع کرکے گدی تک لے جانا اور دوسری دفعہ پیچھے سے اسی طرح آگے لانا ہے۔ اسے دو دفعہ کہیں یا ایک دفعہ، کوئی فرق نہیں کیونکہ ہاتھوں کو اپنی ایک دفعہ ہی لگایا جاتا ہے، اس لیے اسے عام طورپر ایک دفعہ ہی کہا جاتا ہے اور یہی مکمل مسح ہے۔ (3) ہمارے فاضل محقق نے پوری حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے طرق کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے کر حدیث میں وارد الفاظ: [وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ مَرَّتَيْنِ وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّتَيْنِ]’’پاؤں دو دفعہ دھوئے اور اپنے سر کا مسح دو دفعہ کیا۔‘‘ کو سفیان بن عیینہ کا شدید وہم قرار دیا ہے کیونکہ وہ ان الفاظ کے بیان کرنے می سخت اضطراب کا شکار تھے، اس لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کو شاذ قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۱۰۹)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وأبو عوانة في
"صحاحهم ". وقال الترمذي: إنه أصح شيء في الباب وأحسن؛ يعني: باب
المسح على الرأس) .
إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك.
وهذا إسناد صحيح على شرطهما؛ وقد أخرجاه.
والحديث في "موطأً مالك " (1/39- 49) ، وعنه أخرجه الشيخان، وأبو عوانة
والنسائي والترمذي وابن ماجه، وابن خزيمة (157) ، والبيهقي، وأحمد (4/38) ،
ومحمد (47) كلهم عن مالك... به، وقال الترمذي: إنه
" أصح شيء في الباب وأحسن ".
وله عن عمرو بن يحيى طرق أخرى، سيأتي في الكتاب بعضها.
(تنبيه) : روى سفيان بن عيينة هذا الحديث مختصراً عن عمرو بن يحيى...
به وقال:
وغسل رجليه مرتين.
أخرجه الترمذي (1/66- تحقيق أحمد شاكر) . وقال المحقق:
" قال الشارح: أخرجه البخاري ومسلم مطولاً "!
فأقول: أولاً: روايتهما كرواية المؤلف؛ ليس فيها: مرتين.
ثانياً: هذه الزيادة شاذة؛ لخالفة ابن عيينة لرواية مالك ومن وافقه من
أصحاب عمرو بن يحيى المازني؛ وهم: وهيب بن خالد بن عجلان، وسليمان بن
بلال، وخالد بن عبد الله- عند الشيخين-، وعبد العزيز بن عبد الله بن أبي
سلمة الماجشون- عند أحمد (4/40) -؛ فكلهم لم يذكر في الرِّجلين:
مرتين.
وأيضا؛ فابن عيينة كان يضطرب فيها:
فمرة يذكرها ، كما في رواية الترمذي هذه، وعي عند ابن خزيمة أيضا (172) ،
وابن الجارود (70) .
وتارة لا يذكرها، وهي رواية الحميدي في " مسنده " (417) .
وتارة كان يذكرها في المسح فيقول: ومسح برأسه مرتين: رواه أحمد (4/40) ؛
وقال: سمعته من سفيان ثلاث مرات يقول: غسل رجليه مرتين. وقال مرة: مسح
برأسه مرة. وقال مرتين: مسح برأسه مرتين.
وهذا اضطراب شديد من سفيان؛ يدل على أنه لم يحفظ هذا الحرف من
الحديث، ولم يضبطه.
(تنبيه آخر) : زعم الحافظ في "الفتح" (1/291) : أنّ مالكاً خالف الحفاظ في
قوله في اليدين: مرتين؛ وهم وهيب ومن ذكر معه آنفاً فقالوا: ثلاثاً!
وهو وهم منه رحمه الله؛ فإنهم جميعاً قالوا: مرتين؛ كما قال مالك.
نعم؛ رواه مسلم بهذا اللفظ: ثلاثاً؛ من طريق أخرى عن عبد الله بن زيد،
وهي عند أحمد (4/41) .
فلعلها سبب الوهم، وإسناده الأ ول أصح. والله أعلم.
حضرت عبداللہ بن زید ؓ جنھیں خواب میں اذان دکھلائی گئی تھی، سے منقول ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے دیکھا، چنانچہ آپ نے اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا اور دو بازو دو دفعہ دھوئے۔ پاؤں کو بھی دو مرتبہ دھویا اور اپنے سر کا مسح دو دفعہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) خواب میں اذان دکھلائے جانے کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ ویسے یہ عبداللہ بن زید اذان والے نہیں جنھیں اذان دکھائی گئی تھی، وہ عبداللہ بن زید بن عبد ربہ ہیں اور یہ عبداللہ بن زید بن عاصم ہیں۔ یہاں پر (راویٔ حدیث) سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی ہے۔ اس کی وضاحت خود امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمائی ہے۔ دیکھیے: (سنن النسائي، الاستسقاء، حدیث: ۱۵۰۶، و صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: ۱۰۱۲) (2) ’’سر کا مسح دو دفعہ کیا۔‘‘ اس سے مراد ایک دفعہ دونوں ہاتھوں کو آگے سے شروع کرکے گدی تک لے جانا اور دوسری دفعہ پیچھے سے اسی طرح آگے لانا ہے۔ اسے دو دفعہ کہیں یا ایک دفعہ، کوئی فرق نہیں کیونکہ ہاتھوں کو اپنی ایک دفعہ ہی لگایا جاتا ہے، اس لیے اسے عام طورپر ایک دفعہ ہی کہا جاتا ہے اور یہی مکمل مسح ہے۔ (3) ہمارے فاضل محقق نے پوری حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے طرق کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے کر حدیث میں وارد الفاظ: [وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ مَرَّتَيْنِ وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّتَيْنِ]’’پاؤں دو دفعہ دھوئے اور اپنے سر کا مسح دو دفعہ کیا۔‘‘ کو سفیان بن عیینہ کا شدید وہم قرار دیا ہے کیونکہ وہ ان الفاظ کے بیان کرنے می سخت اضطراب کا شکار تھے، اس لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کو شاذ قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۱۰۹)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن زید ؓ (جنہیں خواب میں کلمات اذان بتلائے گئے تھے ۱؎) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے وضو کیا، تو اپنا چہرہ تین بار اور اپنے دونوں ہاتھ دو بار دھوئے، اور اپنے دونوں پاؤں دو بار دھوئے، اور دو بار ۲؎ اپنے سر کا مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «الَّذِي أُرِيَ النِّدَاءَ» یہ راوی کی غلطی ہے، اس لیے کہ وضو والی حدیث کے راوی عبداللہ بن زید بن عاصم+مازنی رضی اللہ عنہ ہیں، اور اذان والی حدیث کے راوی عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ ہیں، اس لیے اس سند میں زید بن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ ۲؎ : دو بار سے مراد پیچھے سے آگے لانا، اور آگے سے پیچھے لے جانا ہے، یہ فی الواقع ایک ہی مسح ہے، راوی نے اس کی ظاہری شکل دیکھ کر اس کی تعبیر «مرتین» (دو بار) سے کر دی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Abdullah bin Zaid, who was shown the call to prayer (in a dream), said: “I saw the Messenger of Allah (ﷺ) perform Wudu he washed his face three times and his hands twice, he washed his feet twice and wiped his head twice.” (Sahih)