Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Recitation in the two rak'ahs after maghrib)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
995.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے ایک آدمی نے ایک آدمی کو (نماز میں) بار بار سورہ (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) پڑھتے سنا۔ جب صبح ہوئی تو وہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس بات کا آپ سے ذکر کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً یہ سورت تہائی قرآن مجید کے برابر ہے۔“
تشریح:
(1) ”تہائی کے برابر“ اس کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اپنے مضمون کے لحاظ سے تہائی کے برابر ہے کیونکہ دین کی بنیاد تین چیزوں پر ہے: (1) توحید (2) رسالت اور (3) آخرت۔ اس میں کامل و اکمل توحید کا بیان ہے۔ بعض اہل علم کا یہ خیال ہے کہ اسے ایک تہائی قرآن اس لیے کہا گیا ہے کہ قرآن میں احکام، اخبار اور اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی گئی ہے۔ اور یہ سورت تیسرے حصے پر مشتمل ہے، لہٰذا یہ تہائی قرآن ہے۔ ان کی دلیل صحیح مسلم کی روایت ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا، چنانچہ سورۂ ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ کو تیسرا حصہ بنایا۔“ (صحیح مسلم صلاة المسافرین، حدیث: ۸۱۱) اور بعض کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی تلاوت کا ثواب ایک تہائی قرآن کی تلاوت کے برابر ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۷۸-۷۷/۹، تحت حدیث: ۵۰۱۳) یہ ہر ایک گروہ کی اپنی اپنی توجیہات ہیں، لہٰذا مختلف قسم کی تاویلات کرنے کے بجائے اگر نص کو اس کے ظاہر پر محمول کر لیں کہ یہ سورت تلاوت اور ثواب کے لحاظ سے ثلث (تہائی قرآن) کے برابر ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) ”ایک آدمی نے ایک آدمی کو سنا“ پڑھنے والے حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہما تھے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ قتادہ رضی اللہ عنہ نے رات کا قیام کیا اور ساری رات ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ پڑھتے رہے، اس سے زیادہ کچھ نہ پڑھا۔ (مسند أحمد: ۱۵/۳) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے سننے والے ابو سعید ہی ہوں، اس لیے کہ یہ ان کے اخیافی بھائی تھے اور ایک دوسرے کے پڑوس میں رہتے تھے اور یہی بات ابن عبدالبر نے بالجزم کہی ہے۔ گویا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اپنا اور اپنے بھائی کا نام پوشیدہ رکھا۔ (فتح الباری: ۷۸/۹، تحت حدیث: ۵۰۱۳) لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ابو سعید رضی اللہ عنہ کو سامع قرار دینا محل نظر ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے بھائی قتادہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی رات کے قیام میں ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ ہی پڑھتا رہا، جب ہم نے صبح کی تو ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور رات کا سارا ماجرا سنایا۔ گویا کہ اس آدمی نے اس قراءت کو کم سمجھا…… تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بے شک یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔“ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: ۵۰۱۴) اس روایت سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ سننے والے ابوسعید نہیں تھے۔ ہاں، البتہ پڑھنے والے قتادہ رضی اللہ عنہ ہوسکتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کا ہاتھ ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه في "صحيحه ") .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن عبد الرحمن بن عبد الله بن
عبد الرحمن عن أبيه عن أبي سعيد الخدري.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات على شرط البخاري؛ وقد أخرجه كما
يأًتي.
والحديث في " موطأ مالك " (1/208- 17) ... بهذا الإسناد.
وعنه: أخرجه البخاري (9/53) ، والنسائي (1/155) ، وأحمد (3/35)
كلهم عن مالك... به.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے ایک آدمی نے ایک آدمی کو (نماز میں) بار بار سورہ (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) پڑھتے سنا۔ جب صبح ہوئی تو وہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس بات کا آپ سے ذکر کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً یہ سورت تہائی قرآن مجید کے برابر ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”تہائی کے برابر“ اس کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اپنے مضمون کے لحاظ سے تہائی کے برابر ہے کیونکہ دین کی بنیاد تین چیزوں پر ہے: (1) توحید (2) رسالت اور (3) آخرت۔ اس میں کامل و اکمل توحید کا بیان ہے۔ بعض اہل علم کا یہ خیال ہے کہ اسے ایک تہائی قرآن اس لیے کہا گیا ہے کہ قرآن میں احکام، اخبار اور اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی گئی ہے۔ اور یہ سورت تیسرے حصے پر مشتمل ہے، لہٰذا یہ تہائی قرآن ہے۔ ان کی دلیل صحیح مسلم کی روایت ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا، چنانچہ سورۂ ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ کو تیسرا حصہ بنایا۔“ (صحیح مسلم صلاة المسافرین، حدیث: ۸۱۱) اور بعض کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی تلاوت کا ثواب ایک تہائی قرآن کی تلاوت کے برابر ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۷۸-۷۷/۹، تحت حدیث: ۵۰۱۳) یہ ہر ایک گروہ کی اپنی اپنی توجیہات ہیں، لہٰذا مختلف قسم کی تاویلات کرنے کے بجائے اگر نص کو اس کے ظاہر پر محمول کر لیں کہ یہ سورت تلاوت اور ثواب کے لحاظ سے ثلث (تہائی قرآن) کے برابر ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) ”ایک آدمی نے ایک آدمی کو سنا“ پڑھنے والے حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہما تھے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ قتادہ رضی اللہ عنہ نے رات کا قیام کیا اور ساری رات ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ پڑھتے رہے، اس سے زیادہ کچھ نہ پڑھا۔ (مسند أحمد: ۱۵/۳) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے سننے والے ابو سعید ہی ہوں، اس لیے کہ یہ ان کے اخیافی بھائی تھے اور ایک دوسرے کے پڑوس میں رہتے تھے اور یہی بات ابن عبدالبر نے بالجزم کہی ہے۔ گویا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اپنا اور اپنے بھائی کا نام پوشیدہ رکھا۔ (فتح الباری: ۷۸/۹، تحت حدیث: ۵۰۱۳) لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ابو سعید رضی اللہ عنہ کو سامع قرار دینا محل نظر ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے بھائی قتادہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی رات کے قیام میں ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ ہی پڑھتا رہا، جب ہم نے صبح کی تو ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور رات کا سارا ماجرا سنایا۔ گویا کہ اس آدمی نے اس قراءت کو کم سمجھا…… تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بے شک یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔“ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: ۵۰۱۴) اس روایت سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ سننے والے ابوسعید نہیں تھے۔ ہاں، البتہ پڑھنے والے قتادہ رضی اللہ عنہ ہوسکتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کا ہاتھ ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک شخص کو «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» پڑھتے سنا، وہ اسے باربار دہرا رہا تھا، جب صبح ہوئی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ تہائی قرآن کے برابر ہے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : بعض علماء نے اس کی توضیح اس طرح کی ہے کہ علوم قرآن کی تین قسمیں ہیں، ایک توحید، دوسری تشریع، اور تیسری اخلاق، ان میں سے پہلی قسم توحید کا جامع بیان اس سورت میں موجود ہے اس لیے اسے ثلث قرآن کہا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Sa'eed Al Khudri (RA) that: A man heard another man reciting "Say: He is Allah, (the) One" and repeating it. When morning came he went to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and told him about that. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "By the One in Whose Hand is my soul, it is equal to one-third of the Quran".