تشریح:
وضاحت:
۱؎: سنجیدگی اورہنسی مذاق دونوں صورتوں میں ان کا اعتبارہوگا۔ اوراس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہنسی مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق جب وہ صراحت کے ساتھ لفظ طلاق کہہ کر طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی اور اس کا یہ کہنا کہ میں نے بطورکھلواڑمذاق میں ایسا کہا تھا اس کے لیے کچھ بھی مفید نہ ہوگا کیونکہ اگر اس کی یہ بات مان لی جائے تو احکام شریعت معطل ہوکر رہ جائیں گے اورہرطلاق دینے والا یا نکاح کرنے والا یہ کہہ کر کہ میں نے ہنسی مذاق میں یہ کہا تھا اپنا دامن بچا لے گا، اس طرح اس سلسلے کے احکام معطل ہوکررہ جائیں گے ۔
نوٹ: (آثار صحابہ سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ عبدالرحمن بن اردک ضعیف ہیں)
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وقال الترمذي: " حديث حسن غريب "، ووافقه الحافظ، ومن قبله الخطابي، وصححه ابن الجارود والحاكم) . إسناده: حدثنا القعنبي: ثنا عبد العزيز- يعني: ابن محمد- عن عبد الرحمن ابن حبيب عن عطاء بن أبي رَباح عن ابن ماهِك عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير ابن حبيب- وهو ابن أرْدكَ المدني-، وقد روى عنه جمع من الثقات، ولذلك وثقه ابن حبان والحاكم. لكن
قال النسائي: " منكر الحديث ". ولينه الذهبي والعسقلاني.
لكن لحديثه شاهد مرسل صحيح الإسناد، وشواهد أخرى موصولة، خرجتها في " الإرواء " (1826) . والحديث أخرجه سعيد بن منصور (3/373/1603) : نا عبد العزيز بن محمد
الدراوردي... به. وراجع المصدر السابق.