تشریح:
وضاخت:
۱؎: علی رضی اللہ عنہ سے ابو جحیفہ کے سوال کرنے کی وجہ سے بعض شیعہ کہتے ہیں کہ اہل بیت بالخصوص علی رضی اللہ عنہ کے پاس نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی کچھ ایسی باتیں ہیں جودوسروں کو معلوم نہیں، کچھ اسی طرح کا سوال علی رضی اللہ عنہ سے قیس بن عبادہ اور اشتر نخعی نے بھی کیا تھا، اس کا ذکر سنن نسائی میں ہے۔
۲؎: رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم عام ہے ہرکافر کے لیے خواہ حربی ہو یا ذمی، لہٰذا مومن کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہیں کیا جائے گا، ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذمی کے بدلے ایک مسلمان کے قتل کا حکم دیا، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، اس کا صحیح ہونا اگر ثابت بھی ہو جائے تو یہ منسوخ ہوگی اور (لَايُقتَلُ مُسلم بِكَافِر) والی روایت اس کے لیے ناسخ ہوگی، کیوں کہ آپﷺ کا یہ فرمان فتح مکہ کے سال کا ہے جب کہ ذمی والی روایت اس سے پہلے کی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : ورجاله ثقات رجال الشيخين . الثالثة : عن قتادة عن أبي حسان عن علي نحوه وتقدم لفظه في ( الحج ) رقم ( 1058 ) . ( تنبيه ) تبين من هذا التخريج أن عزو الحديث بهذا اللفظ لأبي داود ليس بصواب فإن لفظه عنده كالذي قبله ( لا يقتل مؤمن بكافر ) .