قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي الْعَبْدِ يَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَيُعْتِقُ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ​)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

1413 .   حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَهُ وَقَالَ شَقِيصًا قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهَكَذَا رَوَى أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ قَتَادَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَتَادَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَمْرَ السِّعَايَةِ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي السِّعَايَةِ فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ السِّعَايَةَ فِي هَذَا وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَقُ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَ الْعَبْدُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ فَإِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ غَرِمَ نَصِيبَ صَاحِبِهِ وَعَتَقَ الْعَبْدُ مِنْ مَالِهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ عَتَقَ مِنْ الْعَبْدِ مَا عَتَقَ وَلَا يُسْتَسْعَى وَقَالُوا بِمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

جامع ترمذی:

كتاب: حکومت وقضاء کے بیان میں 

  (

باب: دوآدمیوں کے درمیان مشترک غلام کا بیان جس میں سے ایک اپنے حصہ کو آزاد کردے​

)
 

مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)

1413.   محمد بن بشارسے بھی ایسے ہی روایت ہے اور اس میں ’’شقصاً‘‘ کے بجائے ’’شقیصا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲۔ اوراسی طرح ابان بن یزید نے قتادہ سے سعید بن ابی عروبہ کی حدیث کے مثل روایت کی ہے۔۳۔ اور شعبہ نے بھی اس حدیث کو قتادہ سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے اس سے آزادی کے لیے کمائی کرانے کا ذکرنہیں کیا ہے۔۴۔ سعایہ (کمائی کرانے)کے سلسلے میں ا ہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے اس بارے میں سعایہ کو جائز کہا ہے۔ اوریہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے، اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔۵۔ اس باب میں عبداللہ بن عمرو ؓ سے بھی روایت ہے۔۶۔ اوربعض اہل علم نے کہا ہے کہ جب غلام دوآدمیوں میں مشترک ہو اور ان میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کردے تواگراس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے ساجھی دار کے حصے کا تاوان ادا کرے گا اور غلام اسی کے مال سے آزاد ہوجائے گا، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو غلام کو جتنا آزاد کیا گیا ہے اتنا آزاد ہوگا، اور باقی حصہ کی آزادی کے لیے اس سے کمائی نہیں کرائی جائے گی۔ اوران لوگوں نے نبی اکرمﷺسے مروی ابن عمر ؓ کی حدیث کی رُو سے یہ بات کہی ہے، اوریہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے۔ اور مالک بن انس، شافعی اور احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔