موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْأَضَاحِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي الذَّبْحِ بَعْدَ الصَّلاَةِ)
حکم : صحیح
1605 . حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ نَحْرٍ فَقَالَ لَا يَذْبَحَنَّ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُصَلِّيَ قَالَ فَقَامَ خَالِي فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا يَوْمٌ اللَّحْمُ فِيهِ مَكْرُوهٌ وَإِنِّي عَجَّلْتُ نُسُكِي لِأُطْعِمَ أَهْلِي وَأَهْلَ دَارِي أَوْ جِيرَانِي قَالَ فَأَعِدْ ذَبْحًا آخَرَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدِي عَنَاقُ لَبَنٍ وَهِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ أَفَأَذْبَحُهَا قَالَ نَعَمْ وَهِيَ خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ وَلَا تُجْزِئُ جَذَعَةٌ بَعْدَكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَجُنْدَبٍ وَأَنَسٍ وَعُوَيْمِرِ بْنِ أَشْقَرَ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُضَحَّى بِالْمِصْرِ حَتَّى يُصَلِّيَ الْإِمَامُ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَهْلِ الْقُرَى فِي الذَّبْحِ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ أَبُو عِيسَى وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُجْزِئَ الْجَذَعُ مِنْ الْمَعْزِ وَقَالُوا إِنَّمَا يُجْزِئُ الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ
جامع ترمذی:
كتاب: قربانی کے احکام ومسائل
(باب: صلاۃعیدکے بعد قربانی کرنے کا بیان
)مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
1605. براء بن عازب ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپﷺ نے خطبہ کے دوران فرمایا: ’’جب تک نماز عید ادا نہ کرلے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے‘‘۔ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎ ، اورانہوں نے عرض کیا: ا للہ کے رسولﷺ! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’پھر دوسری قربانی کرو‘‘، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اورگوشت والی دوبکریوں سے بہترہے، کیا میں اس کو ذبح کردوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں! وہ تمہاری دونوں قربانیوں سے بہترہے، لیکن تمہارے بعد کسی کے لیے جذعہ ( بچے) کی قربانی کافی نہ ہوگی‘‘ ۲؎۔ اس باب میں جابر، جندب، انس، عویمربن اشقر، ابن عمراورابوزیدانصاری ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲۔ اکثراہل علم کااسی پرعمل ہے کہ جب تک امام نماز عید نہ ادا کرلے شہرمیں قربانی نہ کی جائے۔۳۔ اہل علم کی ایک جماعت نے جب فجرطلوع ہوجائے تو گاؤں والوں کے لیے قربانی کی رخصت دی ہے، ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے۔۴۔ اہل علم کا اجماع ہے کہ بکر ی کے جذع (چھ ماہ کے بچے) کی قربانی درست نہیں ہے، وہ کہتے ہیں البتہ بھیڑ کے جذع کی قربانی درست ہے ۳؎۔