تشریح:
وضاحت:
۱؎: یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث ونائب بنائے گا، یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ ونائب ہے یہ غلط بات ہے ، بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیساکہ خضرکی دعامیں ہے (والخلیفةبعد)
۲؎: یعنی تمہارے دین کے کاموں کے لیے دنیا جس قدر مفید اور معاون ہو اسی قدر اس کی چاہت کرو، اور عورتوں کی مکاری اور ان کی چالبازی سے ہوشیار رہو۔
۳؎: اس حدیث سے بہت سارے فوائد حاصل ہوئے:
(۱) کھڑے ہوکر وعظ و نصیحت کرنا مسنون ہے۔
(۲) انسان بھول چوک کا شکار ہوتاہے، یہاں تک کہ صحابہ کرام بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔
(۳) اظہار حق کے لیے لوگوں کا ڈر و خوف مانع نہ ہو۔
(۴) دنیا اورعورتوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
(۵) عہد توڑنا قیامت کے دن رسوائی کا باعث ہوگی۔
(۶) انسان پیدائش سے لے کر مرنے تک ایمان و کفر کی آزمائش سے گزر تاہے۔
(۷) غصہ کے مختلف مراحل ہیں۔
(۸) قرض کا لین دین، کس انداز سے ہو۔
(۹) غصہ کی حالت میں انسان کیا کرے؟
(۱۰) دنیا سے اس کا کس قدر حصہ باقی رہ گیا ہے۔
(سند میں (علی بن زید بن جدعان) ضعیف ہیں، اس لیے یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، لیکن اس حدیث کے کئی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے: (الصحیحة: ۴۸۶، و ۹۱۱)