تشریح:
۱؎: دعاء استفتاح کے سلسلہ میں سب سے زیادہ صحیح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ((اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَاي..... الخ)) ہے کیونکہ اس کی تخریج بخاری اور مسلم دونوں نے کی ہے، پھر اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی روایت ((إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ.....الخ)) ہے اس لیے کہ اس کی تخریج مسلم نے کی ہے، بعض لوگوں نے اس روایت کے سلسلہ میں یہ کہا ہے کہ امام مسلم نے اس کی تخریج صلاۃ اللیل میں کی جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ دعا صلاۃِ تہجد کے لیے مخصوص ہے اور فرض نماز میں یہ مشروع نہیں، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مسلم میں صلاۃ اللیل میں دو طریق سے منقول ہے لیکن کسی میں بھی یہ منقول نہیں ہے کہ یہ دعا آپ صرف تہجد میں پڑھتے تھے، اور امام ترمذی نے ابواب الدعوات میں تین طرق سے اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن کسی میں بھی نہیں ہے کہ آپ تہجد میں اسے پڑھتے تھے، اس کے برعکس ایک روایت میں ہے کہ جب آپ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے تھے، ابو داؤد نے بھی اپنی سنن میں کتاب الصلاۃ میں اسے دو طریق سے نقل کیا ہے، ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعا آپ تہجد میں پڑھتے تھے، بلکہ اس کے برعکس ایک میں یہ ہے کہ آپ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس وقت یہ دعا پڑھتے، اسی طرح دار قطنی کی ایک روایت میں ہے کہ جب فرض نماز شروع کرتے تو ((إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ)) پڑھتے، ان احادیث کی روشنی میں یہ قول کہ ’’یہ نفلی نماز کے ساتھ مخصوص ہے‘‘ صحیح نہیں ہے۔
۲؎: اس حدیث میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی مذکور دعاء اور عمر بن الخطاب وابن مسعود رضی اللہ عنہم والی دعا میں فرق یہ ہے کہ ابو سعید والی میں ذرا اضافہ ہے جیسے ((اَللهُ أَكْبَرُ كَبِيْراً)) اور ((أَعُوْذُ بِاللهِ...مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ)) جبکہ عمر رضی اللہ عنہ والی میں یہ اضافہ نہیں ہے اور سند اور تعامل کے لحاظ سے یہی زیادہ صحیح ہے۔
نوٹ: (یہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی اگلی حدیث دونوں کی سندوں میں کچھ کلام ہے اس لیے یہ دونوں حدیثیں متابعات و شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہیں)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح) .ناده: حدثنا عبد السلام بن مطَهر: نا جعفر عن علي بن علي الرفاعي عن أبي المتوكل الناجي عن أبي سعيد الخدري. قال أبو داود: " وهذا الحديث؛ يقولون: هو عن علي بن علي عن الحسن... مرسلأ، الوهم من جعفر "!
قلت: وهذا إسناد صحيح عندي، رجاله ثقات رجال "الصحيح "؛ غير علي ابن علي الرفاعي، وهو ثقة كما قال ابن معين وأبو زرعة ووكيع وغيرهم. وقال أحمد: " لم يكن به بأس؛ إلا أنه يرفع أحاديث ".
قلت: وهذا لا يسقط الاحتجاج بحديثه؛ لأن غاية ما فيه: أنه أخطأ أحياناً فرفع أحاديث موقوفة، ومن ذا الذي لا يخطئ؟! قالحق أنه صحيح الحديث؛ إلا إن ظهر خطؤه.
وجعفر: هو ابن سليمان الضبَعِي. والمصنف رحمه الله أعل الحديث بأنه روي مرسلاً، وأن جعفر بن سليمان وهم
فيه فرواه موصولأ! وهذا ليس بشيء عندنا؛ لأن جعفراً ثقة عند ابن معين وابن سعد وابن المديني وغيرهم، وغاية ما قيل فيه: أنه كان يتشيع. وهذا لا يضر في روايته بعد
ثبوت عدالته وصدقه. وقد قال البزار: " لم أسمع أحداً يطعن عليه في الحديث، ولا في خطأ فيه؛ إنما ذكرت عنه
شيعيته، وأما حديثه فمستقيم ". والحديث أخرجه الطحاوي (1/116) : حدثنا إبراهيم بن أبي داود قال: ئنا
أبو ظَفَرٍ عبد السلام بن مطهر... به. ثم أخرجه هو، والنسائي (1/143) ، والترمذي (2/9- 10) ، والدارمي
(1/284) ، وابن ماجه (1/268) ، والدارقطني (ص 112) ، والبيهقي (2/34) ، وأحمد (3/50) ، وابن خزيمة (467) من طرق أخرى عن جعفر... به. وقال الترمذي: -" وحديث أبي سعيد أشهر حديث في هذا الباب ". قال: " وقد تُكُلم في إسناده، كان يحيى بن سعيد يتكلم في علي بن علي الرفاعي. وقال أحمد: لا يصح هذا الحديث "!
قلت: لا شك عندنا في أن الحديث صحيح، وقد عرفت الجواب عمَّا أُعِل به، لا سيما وأن له شواهد كثيرة تقويه؛ منها حديث عائشة، وقد أورده المصنف عقبه، وهو: