Tarimdhi:
Chapters On Zuhd
(Chapter: What Has Been Related About The Insignificance Of The World To Allah, The Mighty And Sublime)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
2510.
سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک دینا کی وقعت اگرایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا‘‘۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔۲۔ اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے بلکہ یہ حقیر سے حقیرچیزہے ، اس کی حقارت کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدروقیمت ہوتی تو اسے صرف اپنے محبوب بندوں کو نوازتا، جب کہ حال یہ ہے کہ اسے اپنے دشمنوں یعنی کفارومشرکین کو دیتاہے ، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دینے والا اپنے دشمن کووہ چیزدے جو اس کے نزدیک قدروقیمت والی ہو، کافروں کو جنت کی ایک ادنی نعمت سے اسی لیے محروم رکھاگیا ہے کیونکہ جنت اللہ کے محبوب بندوں کے لیے ہے، نہ کہ اس کے دشمنوں کے لیے، معلوم ہو اکہ اللہ کے نزدیک دنیااور اس کے مال واسباب کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے، لہٰذا اہل ایمان کے نزدیک بھی اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہونی چاہئے بلکہ اسے آخرت کی زندگی سنوارنے کا ایک ذریعہ سمجھناچاہئے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 654 :
روي من حديث أنس و عبد الله بن عباس .
1 - أما حديث أنس ، فله عنه طريقان : الأول : عن معاوية بن يحيى عن الزهري عنه
مرفوعا به . أخرجه ابن ماجه ( 4181 ) و الخرائطي في " مكارم الأخلاق " ( ص 49 )
و الطبراني في " الصغير " ( ص 5 ) و البغوي في " حديث علي بن الجعد " ( 12 /
169 / 1 ) و ابن المظفر في " الفوائد المنتقاة " ( 2 / 216 / 2 ) و أبو الحسن
بن لؤلؤ في " حديث حمزة الكاتب " ( 206 / 1 ) و أبو الحسن الحربي في " جزء فيه
نسخة عبد العزيز بن المختار عن سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة " ( 164
/ 2 ) و القضاعي في " مسند الشهاب " ( 86 / 1 ) و ابن عساكر ( 8 / 446 / 2 ، 16
/ 392 / 2 ) .
قلت : و هذا إسناد فيه ضعف ، معاوية بن يحيى و هو الصدفي قال : الحافظ : " ضعيف
: و ما حدث بالشام أحسن مما حدث بالري " . و تابعه عباد بن كثير عن عمر بن عبد
العزيز عن الزهري به . أخرجه الباغندي في " مسند عمر " ( ص 13 ) و الخطيب في
" الموضح " ( 2 / 146 ) . و عباد بن كثير و هو الفلسطيني ضعيف و هو خير من
البصري ، ذاك متروك . و تابعه عيسى بن يونس عن مالك عن الزهري به . أخرجه
الخطيب ( 8 / 4 ) و عنه ابن عساكر ( 4 / 327 / 1 ) من طريق الحسين بن أحمد بن
عبد الله بن وهب الأسدي حدثنا محمد بن عبد الرحمن ابن سهم حدثنا عيسى بن يونس .
قلت : و رجاله ثقات غير الحسين بن أحمد هذا ، ترجمه الخطيب و ذكر أنه روى عن
جماعة كثيرة سماهم ، و عنه عبد الصمد الطستي و أبو بكر الشافعي و لم يذكر فيه
جرحا و لا تعديلا ، لكن يظهر أن في نسخة " تاريخ الخطيب " سقطا ! فقد حكى ابن
عساكر كلام الخطيب فيه ، و زاد في الرواة عنه علي بن محمد بن معلى الشونيزي ،
و قال : " قال : و ما علمت منه إلا خيرا " . و ابن سهم و هو الأنطاكي . ترجمه
الخطيب أيضا ( 2 / 310 ) و قال : " و كان ثقة " . و ذكر ابن أبي حاتم ( 2 / 2 /
5 ) عن أبيه أن مسلما روى عنه : فالظاهر أنه يعني أنه روى عنه خارج " الصحيح ".
و بالجملة فهذا الإسناد حسن ، و لا يعكر عليه أن مالكا أخرجه في " الموطأ " ( 2
/ 905 / 9 ) عن سلمة بن صفوان بن سلمة الزرقي عن يزيد بن طلحة بن ركانة يرفعه
إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكره . لا يعكر هذا على ذاك لأنه إسناد آخر و هو
مرسل ، بل هو شاهد للموصول لا بأس به . و يزيد بن طلحة ، ترجمه ابن أبي حاتم (
4 / 2 / 273 ) و لم يذكر فيه جرحا و لا تعديلا ، لكن قال السيوطي في " إسعاف
المبطأ " : " له صحبة " .
الثاني : عن سويد بن سعيد حدثنا صالح بن موسى الطلحي حدثنا قتادة عن أنس به .
أخرجه ابن بشران في " الأمالي " ( 155 / 1 ) .
قلت : و هذا سند ضعيف جدا ، صالح بن موسى الطلحي متروك كما في " التقريب " .
و سويد بن سعيد ضعيف ، و أفحش فيه ابن معين القول .
2 - و أما حديث ابن عباس ، فيرويه سعيد بن محمد الوراق حدثنا صالح بن حسان عن
محمد بن كعب عنه مرفوعا به . أخرجه الخرائطي ، و العقيلي في " الضعفاء " ( 187
) و ابن عدي في " الكامل " ( 198 / 1 ) و أبو نعيم في " الحلية " ( 3 / 220 ) ،
و قال العقيلي : " صالح بن حسان قال البخاري : " منكر الحديث " ، و في هذا
رواية من وجه آخر أيضا فيه لين " . و قال ابن أبي حاتم في " العلل " ( 2 / 288
) عن أبيه : " هذا حديث منكر " . و بالجملة فالحديث صحيح بمجموع طريقي أنس
و حديث يزيد بن طلحة . و الله تعالى أعلم .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2506
٧
ترقيم دار الغرب الإسلامي (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار الغرب الاسلامی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2320
٩
ترقيم أحمد شاكر (دار الدعوة السلفية)
ترقیم احمد شاکر (دار الدعوۃ السلفیہ)
2320
تمہید کتاب
زہد بالفتح لغت میں بمعنی قدروارد ہوا ہے چنانچہ عرب کہتا ہے۔خُذْزَهْدَ مَا يَكْفِيْكَ اور زهد بالضم بے رغبتی اور طیب کسب اور اور قصرَامل اور زَہَدَ بفتحتین زکوٰۃ ،اور زاہد بے رغبتی کرنے والا اور زاہد بن عبداللہ اور ابوزاہد نام ہے دوبڑے محدثوں کا اور زہاد وہ زمین کہ بغیر آب کثیر کے رواں نہ ہوا اور زہید ہر چیز سے تھوڑے کو کہتے ہیں اور زَہَدَ فیہ یعنی بے رغبتی کی اس چیز سے اور اسی سے قول اللہ تعالیٰ کا (وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ)یعنی بے رغبتی کرنے والے تھے یوسف سے بھائی اس کے اور تزہید کسی کو زہد پر برانگیختہ کرنا (منتہی الارب)اور اصطلاح شر ح میں زہد بے رغبتی کرنا ہے دنیا فانی سے واسطے حصول نعما اور باقیہ اخروی کے اور یہ اولیٰ ہے درجہ ہے اور بے رغبتی کرنا ہے غیر خدا سے واسطے تحصیل و صال الٰہی کے اور قرب اس کے اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اور ترک کرنا حظ نفس کا با ختیار خود اور وہ مرکب ہے حال ہور علم اور عمل سے مراد حال سے رغبت قلبی کا پھیرنا ہے ایک ادنیٰ چیز سے طرف اعلیٰ چیز کے پس جس طرف سے دل کو پھیرا ہے اس کو مرغوب عنہ کہتے ہیں اور مزہودفیہ اور جدھر پھیرا ہے اسے مرغوب فیہ کہتے اور مزہود لہ تو ضرور ہوا کہ جس طرف سے دل کو پھیراہے اس کو مرغوب شئی من وجہ ہوورنہ یہ پھیرنا زہد نہ کہلائے گا جیسا کہ تارک حجر و تراب کا زاہد نہ کہلائے گا برخلاف تارک اہم و دنا نیر کے اور شرط مرغوب فیہ کی یہ ہے کہ بہتر ہواس کے نزدیک مرغوب عنہ سے اس لیے کہ بائع اقدام نہیں کرتا بیع پر جب تک کہ نہیں سمجھ لیتا کہ ثمن بہتر ہے مبیع سے پس وہ کہا جاتا ہے باعتبار بیع کے زاہد اور باعتبار ثمن کے راغب اسی طرح کہا جاتا ہے زاہد باعتبار دنیا کے اور راغب باعتبار عقبیٰ کے یا زاہد کہا جاتا ہے باعتبار ماسوا کے اور راغب باعتبار مولیٰ کے اور مراد علم سے اس مقام میں وہ علم ہے کہ مثمر ہوئے اس حال کا جواوپر مذکور ہوا اور وہ یہ ہے کہ شئے متروک کو حقیر جانے باعتبار شئے ماخوذ کے اور جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا جیسے بائع جب تک کہ ثمن کو مبیع سے بہتر نہ سمجھ لے تب تک ترک مبیع اور اخذ ثمن جائز نہیں رکھتا، اسی طرح جس شخص نے بخوبی جان لیا کہ دنیا فانی ہے بمنزلہ برف کے اور عقبیٰ باقی اور بہتر ہے بمنزلہ درنا نیر کے ،پس اس کو برف کا دینار سے دشوارنہیں خصوصاً ایسے حال میں کہ برف دھوپ میں گھلتی ہو اور قیمت ہزار گنی لاگت سے ملتی ہو اور مشتری اس کا امین ہو اور خازن برف خائن پس یہ علم جب درجہ یقین کو پہنچتا ہے حالت مذکورہ کو کمال قوت دیتا ہے اور واقع برف سے دنیا جلدی فانی ہونے والی ہے اس لیے وہ فقط گرمی میں گھلتی ہے اور یہ گرمی ،جاڑے ،برسات بلکہ دن رات معرض زوال میں ہے اور عقبیٰ دراہم و دینار سے ہزار درجہ اولیٰ ،اس لیے ک یہ بھی فانی ہیں اگر چہ برف سے فنا ان کی متاخر ہو بخلاف عقبیٰ کے کہ ابدالآباد ہے اور فنا و زوال کا ہر گز اس میں مجال نہیں اور مراد عمل سے ترک مطلق ہے اور بدل دنیا اس چیز کا جو ادنیٰ ہے اور لے لینا اعلیٰ کا اس کے عوض میں اسی طرح زہد واجب کرتا ہے مزہود فیہ کے تر کو بالکلیہ اور وہ ساری دنیا ہے مع اسباب اور متعلقات اور مقدمات اپنے پس نکال دے اپنے دل سے محبت اس کی اور داخل کرے اس کے عوض میں محبت طاعات و عبادات کی اور اتباع سنن اور ریاضات کی اور نکال دے اس چیز کو ہاتھ سے اور آنکھوں سے جیسے نکال دیا دل سے اور مشغول کرے چشم و دل کو وظائف طاعات میں جیسا کہ مشغول تھے پہلے دنیا کی لذت میں اور اور مستثیر ہو اس بیع و بدل کے ساتھ (كَذَ ذَكَرَ الْغَزَالِىُّ)اور باقی احکام زہد کے ضمن میں احادیث میں مذکور ہوں گے۔
سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک دینا کی وقعت اگرایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا‘‘۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱۔ یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔ ۲۔ اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے بلکہ یہ حقیر سے حقیرچیزہے ، اس کی حقارت کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدروقیمت ہوتی تو اسے صرف اپنے محبوب بندوں کو نوازتا، جب کہ حال یہ ہے کہ اسے اپنے دشمنوں یعنی کفارومشرکین کو دیتاہے ، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دینے والا اپنے دشمن کووہ چیزدے جو اس کے نزدیک قدروقیمت والی ہو، کافروں کو جنت کی ایک ادنی نعمت سے اسی لیے محروم رکھاگیا ہے کیونکہ جنت اللہ کے محبوب بندوں کے لیے ہے، نہ کہ اس کے دشمنوں کے لیے، معلوم ہو اکہ اللہ کے نزدیک دنیااور اس کے مال واسباب کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے، لہٰذا اہل ایمان کے نزدیک بھی اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہونی چاہئے بلکہ اسے آخرت کی زندگی سنوارنے کا ایک ذریعہ سمجھناچاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Sahl Ibn Sa’d (RA) reported that Allah;s Messenger (ﷺ) said, “ If in Allah’s sight , the world had so much worth as wing of mosquito then a infidel would never have drunk even a drop of water” [ Ibn e Majah 4110]