باب: انسان کہتا ہے کہ میرا مال میرا مال اس حدیث کا بیان
)
Tarimdhi:
Chapters On Zuhd
(Chapter: The Hadith: The Son Of Adam says: 'My Wealth, My Wealth"')
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
2533.
عبد اللہ بن شخیر ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور آپﷺ ﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ...﴾ کی تلاوت کر رہے تھے توآپﷺ نے فرمایا: ’’ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال، میرامال، حالاں کہ تمہارا مال صرف وہ ہے جوتم نے صدقہ کردیا اور اسے آگے چلادیا۱؎ ، اور کھایا اور اسے ختم کردیا یا پہنا اور اسے پرانا کردیا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنامال سمجھتاہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطراس نے صدقہ کردیا، اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑا ہے، باقی مال کھا پی کراسے ختم کردیا یا پہن کراسے بوسیدا اورپرانا کردیا، صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا، اس حدیث میں مستحقین پراوراللہ کی پسندیدہ راہوں پرخرچ کرنے کی ترغیب ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2529
٧
ترقيم دار الغرب الإسلامي (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار الغرب الاسلامی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2342
٩
ترقيم أحمد شاكر (دار الدعوة السلفية)
ترقیم احمد شاکر (دار الدعوۃ السلفیہ)
2342
تمہید کتاب
زہد بالفتح لغت میں بمعنی قدروارد ہوا ہے چنانچہ عرب کہتا ہے۔خُذْزَهْدَ مَا يَكْفِيْكَ اور زهد بالضم بے رغبتی اور طیب کسب اور اور قصرَامل اور زَہَدَ بفتحتین زکوٰۃ ،اور زاہد بے رغبتی کرنے والا اور زاہد بن عبداللہ اور ابوزاہد نام ہے دوبڑے محدثوں کا اور زہاد وہ زمین کہ بغیر آب کثیر کے رواں نہ ہوا اور زہید ہر چیز سے تھوڑے کو کہتے ہیں اور زَہَدَ فیہ یعنی بے رغبتی کی اس چیز سے اور اسی سے قول اللہ تعالیٰ کا (وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ)یعنی بے رغبتی کرنے والے تھے یوسف سے بھائی اس کے اور تزہید کسی کو زہد پر برانگیختہ کرنا (منتہی الارب)اور اصطلاح شر ح میں زہد بے رغبتی کرنا ہے دنیا فانی سے واسطے حصول نعما اور باقیہ اخروی کے اور یہ اولیٰ ہے درجہ ہے اور بے رغبتی کرنا ہے غیر خدا سے واسطے تحصیل و صال الٰہی کے اور قرب اس کے اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اور ترک کرنا حظ نفس کا با ختیار خود اور وہ مرکب ہے حال ہور علم اور عمل سے مراد حال سے رغبت قلبی کا پھیرنا ہے ایک ادنیٰ چیز سے طرف اعلیٰ چیز کے پس جس طرف سے دل کو پھیرا ہے اس کو مرغوب عنہ کہتے ہیں اور مزہودفیہ اور جدھر پھیرا ہے اسے مرغوب فیہ کہتے اور مزہود لہ تو ضرور ہوا کہ جس طرف سے دل کو پھیراہے اس کو مرغوب شئی من وجہ ہوورنہ یہ پھیرنا زہد نہ کہلائے گا جیسا کہ تارک حجر و تراب کا زاہد نہ کہلائے گا برخلاف تارک اہم و دنا نیر کے اور شرط مرغوب فیہ کی یہ ہے کہ بہتر ہواس کے نزدیک مرغوب عنہ سے اس لیے کہ بائع اقدام نہیں کرتا بیع پر جب تک کہ نہیں سمجھ لیتا کہ ثمن بہتر ہے مبیع سے پس وہ کہا جاتا ہے باعتبار بیع کے زاہد اور باعتبار ثمن کے راغب اسی طرح کہا جاتا ہے زاہد باعتبار دنیا کے اور راغب باعتبار عقبیٰ کے یا زاہد کہا جاتا ہے باعتبار ماسوا کے اور راغب باعتبار مولیٰ کے اور مراد علم سے اس مقام میں وہ علم ہے کہ مثمر ہوئے اس حال کا جواوپر مذکور ہوا اور وہ یہ ہے کہ شئے متروک کو حقیر جانے باعتبار شئے ماخوذ کے اور جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا جیسے بائع جب تک کہ ثمن کو مبیع سے بہتر نہ سمجھ لے تب تک ترک مبیع اور اخذ ثمن جائز نہیں رکھتا، اسی طرح جس شخص نے بخوبی جان لیا کہ دنیا فانی ہے بمنزلہ برف کے اور عقبیٰ باقی اور بہتر ہے بمنزلہ درنا نیر کے ،پس اس کو برف کا دینار سے دشوارنہیں خصوصاً ایسے حال میں کہ برف دھوپ میں گھلتی ہو اور قیمت ہزار گنی لاگت سے ملتی ہو اور مشتری اس کا امین ہو اور خازن برف خائن پس یہ علم جب درجہ یقین کو پہنچتا ہے حالت مذکورہ کو کمال قوت دیتا ہے اور واقع برف سے دنیا جلدی فانی ہونے والی ہے اس لیے وہ فقط گرمی میں گھلتی ہے اور یہ گرمی ،جاڑے ،برسات بلکہ دن رات معرض زوال میں ہے اور عقبیٰ دراہم و دینار سے ہزار درجہ اولیٰ ،اس لیے ک یہ بھی فانی ہیں اگر چہ برف سے فنا ان کی متاخر ہو بخلاف عقبیٰ کے کہ ابدالآباد ہے اور فنا و زوال کا ہر گز اس میں مجال نہیں اور مراد عمل سے ترک مطلق ہے اور بدل دنیا اس چیز کا جو ادنیٰ ہے اور لے لینا اعلیٰ کا اس کے عوض میں اسی طرح زہد واجب کرتا ہے مزہود فیہ کے تر کو بالکلیہ اور وہ ساری دنیا ہے مع اسباب اور متعلقات اور مقدمات اپنے پس نکال دے اپنے دل سے محبت اس کی اور داخل کرے اس کے عوض میں محبت طاعات و عبادات کی اور اتباع سنن اور ریاضات کی اور نکال دے اس چیز کو ہاتھ سے اور آنکھوں سے جیسے نکال دیا دل سے اور مشغول کرے چشم و دل کو وظائف طاعات میں جیسا کہ مشغول تھے پہلے دنیا کی لذت میں اور اور مستثیر ہو اس بیع و بدل کے ساتھ (كَذَ ذَكَرَ الْغَزَالِىُّ)اور باقی احکام زہد کے ضمن میں احادیث میں مذکور ہوں گے۔
عبد اللہ بن شخیر ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور آپﷺ ﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ...﴾ کی تلاوت کر رہے تھے توآپﷺ نے فرمایا: ’’ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال، میرامال، حالاں کہ تمہارا مال صرف وہ ہے جوتم نے صدقہ کردیا اور اسے آگے چلادیا۱؎ ، اور کھایا اور اسے ختم کردیا یا پہنا اور اسے پرانا کردیا‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنامال سمجھتاہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطراس نے صدقہ کردیا، اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑا ہے، باقی مال کھا پی کراسے ختم کردیا یا پہن کراسے بوسیدا اورپرانا کردیا، صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا، اس حدیث میں مستحقین پراوراللہ کی پسندیدہ راہوں پرخرچ کرنے کی ترغیب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mutarrif narrated: My father went to the Prophet (ﷺ) and he was reciting: (your rivalry for amassing riches distracts you) (102:1). He said, “The son of Aadam says, “My property, my property!” But, is there anything for you from your wealth except that which you gave in charity and advanced (to Allah for yourself), or consumed and finished, or put on (or donned) and wore off?” [Ahmed 16427, Muslim 2958]