باب: برابر سرابر مال پر اکتفا کرنا اور زائد مال خرچ کر دینا
)
Tarimdhi:
Chapters On Zuhd
(Chapter: Regarding The Virtue Of Sufficing With What Is Sufficient And Giving The Surplus)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
2534.
ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ابن آدم! اگر تو اپنی حاجت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو یہ تیرے لیے بہتر ہوگا، اور اگر تو اسے روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہوگا، اور بقدر کفاف خرچ کرنے میں تیری ملامت نہیں کی جائے گی اور صدقہ وخیرات دیتے وقت ان لوگوں سے شروع کر جن کی کفالت تیرے ذمہ ہے، اور اوپروالا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے ہاتھ (مانگنے والے) سے بہتر ہے‘‘۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اگراللہ نے تمہیں مال ودولت سے نوازا ہے تو اس سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی ضرورت وحاجت کا خیال رکھو اورضرورت سے زائد مال حاجتمندوں اورمستحقین کے درمیان تقسیم کردوکیونکہ جمع خوری کا نتیجہ دنیا اورآخرت دونوں جگہ صحیح نہیں، جمع خوری سے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں، اورآخرت میں بخل کا جوانجام ہے وہ بالکل واضح ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2530
٧
ترقيم دار الغرب الإسلامي (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار الغرب الاسلامی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2343
٩
ترقيم أحمد شاكر (دار الدعوة السلفية)
ترقیم احمد شاکر (دار الدعوۃ السلفیہ)
2343
تمہید کتاب
زہد بالفتح لغت میں بمعنی قدروارد ہوا ہے چنانچہ عرب کہتا ہے۔خُذْزَهْدَ مَا يَكْفِيْكَ اور زهد بالضم بے رغبتی اور طیب کسب اور اور قصرَامل اور زَہَدَ بفتحتین زکوٰۃ ،اور زاہد بے رغبتی کرنے والا اور زاہد بن عبداللہ اور ابوزاہد نام ہے دوبڑے محدثوں کا اور زہاد وہ زمین کہ بغیر آب کثیر کے رواں نہ ہوا اور زہید ہر چیز سے تھوڑے کو کہتے ہیں اور زَہَدَ فیہ یعنی بے رغبتی کی اس چیز سے اور اسی سے قول اللہ تعالیٰ کا (وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ)یعنی بے رغبتی کرنے والے تھے یوسف سے بھائی اس کے اور تزہید کسی کو زہد پر برانگیختہ کرنا (منتہی الارب)اور اصطلاح شر ح میں زہد بے رغبتی کرنا ہے دنیا فانی سے واسطے حصول نعما اور باقیہ اخروی کے اور یہ اولیٰ ہے درجہ ہے اور بے رغبتی کرنا ہے غیر خدا سے واسطے تحصیل و صال الٰہی کے اور قرب اس کے اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اور ترک کرنا حظ نفس کا با ختیار خود اور وہ مرکب ہے حال ہور علم اور عمل سے مراد حال سے رغبت قلبی کا پھیرنا ہے ایک ادنیٰ چیز سے طرف اعلیٰ چیز کے پس جس طرف سے دل کو پھیرا ہے اس کو مرغوب عنہ کہتے ہیں اور مزہودفیہ اور جدھر پھیرا ہے اسے مرغوب فیہ کہتے اور مزہود لہ تو ضرور ہوا کہ جس طرف سے دل کو پھیراہے اس کو مرغوب شئی من وجہ ہوورنہ یہ پھیرنا زہد نہ کہلائے گا جیسا کہ تارک حجر و تراب کا زاہد نہ کہلائے گا برخلاف تارک اہم و دنا نیر کے اور شرط مرغوب فیہ کی یہ ہے کہ بہتر ہواس کے نزدیک مرغوب عنہ سے اس لیے کہ بائع اقدام نہیں کرتا بیع پر جب تک کہ نہیں سمجھ لیتا کہ ثمن بہتر ہے مبیع سے پس وہ کہا جاتا ہے باعتبار بیع کے زاہد اور باعتبار ثمن کے راغب اسی طرح کہا جاتا ہے زاہد باعتبار دنیا کے اور راغب باعتبار عقبیٰ کے یا زاہد کہا جاتا ہے باعتبار ماسوا کے اور راغب باعتبار مولیٰ کے اور مراد علم سے اس مقام میں وہ علم ہے کہ مثمر ہوئے اس حال کا جواوپر مذکور ہوا اور وہ یہ ہے کہ شئے متروک کو حقیر جانے باعتبار شئے ماخوذ کے اور جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا جیسے بائع جب تک کہ ثمن کو مبیع سے بہتر نہ سمجھ لے تب تک ترک مبیع اور اخذ ثمن جائز نہیں رکھتا، اسی طرح جس شخص نے بخوبی جان لیا کہ دنیا فانی ہے بمنزلہ برف کے اور عقبیٰ باقی اور بہتر ہے بمنزلہ درنا نیر کے ،پس اس کو برف کا دینار سے دشوارنہیں خصوصاً ایسے حال میں کہ برف دھوپ میں گھلتی ہو اور قیمت ہزار گنی لاگت سے ملتی ہو اور مشتری اس کا امین ہو اور خازن برف خائن پس یہ علم جب درجہ یقین کو پہنچتا ہے حالت مذکورہ کو کمال قوت دیتا ہے اور واقع برف سے دنیا جلدی فانی ہونے والی ہے اس لیے وہ فقط گرمی میں گھلتی ہے اور یہ گرمی ،جاڑے ،برسات بلکہ دن رات معرض زوال میں ہے اور عقبیٰ دراہم و دینار سے ہزار درجہ اولیٰ ،اس لیے ک یہ بھی فانی ہیں اگر چہ برف سے فنا ان کی متاخر ہو بخلاف عقبیٰ کے کہ ابدالآباد ہے اور فنا و زوال کا ہر گز اس میں مجال نہیں اور مراد عمل سے ترک مطلق ہے اور بدل دنیا اس چیز کا جو ادنیٰ ہے اور لے لینا اعلیٰ کا اس کے عوض میں اسی طرح زہد واجب کرتا ہے مزہود فیہ کے تر کو بالکلیہ اور وہ ساری دنیا ہے مع اسباب اور متعلقات اور مقدمات اپنے پس نکال دے اپنے دل سے محبت اس کی اور داخل کرے اس کے عوض میں محبت طاعات و عبادات کی اور اتباع سنن اور ریاضات کی اور نکال دے اس چیز کو ہاتھ سے اور آنکھوں سے جیسے نکال دیا دل سے اور مشغول کرے چشم و دل کو وظائف طاعات میں جیسا کہ مشغول تھے پہلے دنیا کی لذت میں اور اور مستثیر ہو اس بیع و بدل کے ساتھ (كَذَ ذَكَرَ الْغَزَالِىُّ)اور باقی احکام زہد کے ضمن میں احادیث میں مذکور ہوں گے۔
ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ابن آدم! اگر تو اپنی حاجت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو یہ تیرے لیے بہتر ہوگا، اور اگر تو اسے روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہوگا، اور بقدر کفاف خرچ کرنے میں تیری ملامت نہیں کی جائے گی اور صدقہ وخیرات دیتے وقت ان لوگوں سے شروع کر جن کی کفالت تیرے ذمہ ہے، اور اوپروالا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے ہاتھ (مانگنے والے) سے بہتر ہے‘‘۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اگراللہ نے تمہیں مال ودولت سے نوازا ہے تو اس سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی ضرورت وحاجت کا خیال رکھو اورضرورت سے زائد مال حاجتمندوں اورمستحقین کے درمیان تقسیم کردوکیونکہ جمع خوری کا نتیجہ دنیا اورآخرت دونوں جگہ صحیح نہیں، جمع خوری سے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں، اورآخرت میں بخل کا جوانجام ہے وہ بالکل واضح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Abu Umamah reported that Allah’s Messenger said, “if you, O son of Aadam, spend the excess (in good cause), that is good for you. But, if you retain it then it is bad for you. There is no blame on spending over the necessities. And, begin (charity) with those whom you support. And, the upper hand is better than the lower. “ [Muslim 1036, Ahmed 22328]