باب: اس وصف کے بیان میں کہ جس کے لیے دنیا جمع کر دی گئی ہو
)
Tarimdhi:
Chapters On Zuhd
(Chapter: About The Description Of The One For Whom The World Has Been Gathered)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
2537.
عبیداللہ بن محصن خطمی ؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھریا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی‘‘۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف مروان بن معاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔۲۔ اور (حيزت) کا مطلب یہ ہے کہ جمع کی گئی ۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ امن وصحت کے ساتھ ایک دن کی روزی والی زندگی دولت کے انبار والی اس زندگی سے کہیں بہترہے جو امن وصحت والی نہ ہو، گویا انسان کو مال ودولت کے پیچھے زیادہ نہیں بھاگناچاہئے بلکہ صبروقناعت کا راستہ اختیارکرنا چاہئے کیونکہ امن وسکون اور راحت وآسائش اسی میں ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 5 / 408 :
روي من حديث عبيد الله بن محصن الأنصاري و أبي الدرداء و ابن عمر و علي .
1 - أما حديث الأنصاري فيرويه ابنه سلمة بن عبيد الله بن محصن الأنصاري عن أبيه
مرفوعا . أخرجه البخاري في " الأدب المفرد " ( 300 ) و " التاريخ " ( 3 / 1 /
373 ) و الترمذي ( 2347 ) و ابن ماجة ( 2 / 525 ) و الحميدي في " مسنده " رقم
( 439 ) و العقيلي في " الضعفاء " ( 166 ) و ابن أبي الدنيا في " القناعة "
( 2 / 4 / 2 ) و الخطيب في " التاريخ " ( 3 / 364 ) و البيهقي في " الزهد " (
14 / 1 ) و القضاعي في " مسنده " ( 45 / 2 ) كلهم عنه به . و قال العقيلي : "
سلمة بن عبيد الله مجهول في النقل ، و لا يتابع على حديثه ، و لا يعرف إلا به .
قال أحمد : " لا أعرفه " ، و قد رووا مثل هذا الكلام عن أبي الدرداء عن النبي
صلى الله عليه وسلم بإسناد يشبه هذا في اللين " . و قال الحافظ في " التقريب "
: " مجهول " . و أما الترمذي ، فقال : " حديث حسن غريب " . قلت : و هذا من
تساهله الذي عرف به ، و لو قال : " حسن " فقط ، لكان مقبولا لأن المعنى حينئذ
أنه حسن لغيره ، و هذا ما يشهد له ما يأتي من الطرق .
2 - و أما حديث أبي الدرداء فيرويه عبد الله بن هانىء بن عبد الرحمن بن أبي
عبلة أبو عمرو قال : أخبرنا أبي عن إبراهيم بن أبي عبلة عن أم الدرداء عنه
مرفوعا به . و زاد في بعض الروايات عنه : " يا ابن جعشم ! يكفيك منها ما سد
جوعتك و وارى عورتك و إن كان ثوبا يواريك فذاك ، و إن كانت دابة تركبها فبخ ،
فلق الخبز و ماء الجر و ما فوق ذلك حساب عليك " . أخرجه ابن حبان ( 2507 ) و
أبو نعيم في " الحلية " ( 5 / 249 ) و الخطيب ( 6 / 166 ) و ابن عساكر في "
التاريخ " ( 2 / 268 / 2 ، 19 / 280 / 1 ) و الزيادة له . قلت : و هذا إسناد
ضعيف جدا ، عبد الله بن هانىء قال الذهبي : " متهم بالكذب " . و قال أبو حاتم :
" روى عنه محمد بن عبد الله بن مخلد الهروي أحاديث بواطيل ، قدمت الرملة ، فذكر
لي أنه في بعض القرى ، و سألت عنه ؟ فقيل : هو شيخ يكذب ، فلم أخرج إليه " . و
أما ابن حبان فذكره في " الثقات " ( 8 / 357 ) ! و أبوه هانىء بن عبد الرحمن ،
قال ابن حبان في " الثقات " ( 7 / 583 ) : " ربما أغرب " . و قال الهيثمي في "
مجمع الزوائد " ( 10 / 289 ) : " رواه الطبراني ، و رجاله وثقوا على ضعف في
بعضهم " .
3 - و أما حديث ابن عمر فيرويه فضيل بن مرزوق عن عطية عنه . أخرجه ابن أبي
الدنيا أيضا . و عطية - هو العوفي - ضعيف .
4 - و أما حديث علي فيرويه أحمد بن عيسى العلوي حدثنا محمد بن جعفر بن محمد عن
أبيه عن جده مرفوعا . أخرجه السهمي في " تاريخ جرجان " ( 322 ) . قلت : و
العلوي هذا قال الدارقطني : " كذاب " . قلت : فلا يستشهد به . و بالجملة ،
فالحديث حسن إن شاء الله بمجموع حديثي الأنصاري و ابن عمر . و الله أعلم .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2533
٧
ترقيم دار الغرب الإسلامي (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار الغرب الاسلامی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2346
٩
ترقيم أحمد شاكر (دار الدعوة السلفية)
ترقیم احمد شاکر (دار الدعوۃ السلفیہ)
2346
تمہید کتاب
زہد بالفتح لغت میں بمعنی قدروارد ہوا ہے چنانچہ عرب کہتا ہے۔خُذْزَهْدَ مَا يَكْفِيْكَ اور زهد بالضم بے رغبتی اور طیب کسب اور اور قصرَامل اور زَہَدَ بفتحتین زکوٰۃ ،اور زاہد بے رغبتی کرنے والا اور زاہد بن عبداللہ اور ابوزاہد نام ہے دوبڑے محدثوں کا اور زہاد وہ زمین کہ بغیر آب کثیر کے رواں نہ ہوا اور زہید ہر چیز سے تھوڑے کو کہتے ہیں اور زَہَدَ فیہ یعنی بے رغبتی کی اس چیز سے اور اسی سے قول اللہ تعالیٰ کا (وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ)یعنی بے رغبتی کرنے والے تھے یوسف سے بھائی اس کے اور تزہید کسی کو زہد پر برانگیختہ کرنا (منتہی الارب)اور اصطلاح شر ح میں زہد بے رغبتی کرنا ہے دنیا فانی سے واسطے حصول نعما اور باقیہ اخروی کے اور یہ اولیٰ ہے درجہ ہے اور بے رغبتی کرنا ہے غیر خدا سے واسطے تحصیل و صال الٰہی کے اور قرب اس کے اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اور ترک کرنا حظ نفس کا با ختیار خود اور وہ مرکب ہے حال ہور علم اور عمل سے مراد حال سے رغبت قلبی کا پھیرنا ہے ایک ادنیٰ چیز سے طرف اعلیٰ چیز کے پس جس طرف سے دل کو پھیرا ہے اس کو مرغوب عنہ کہتے ہیں اور مزہودفیہ اور جدھر پھیرا ہے اسے مرغوب فیہ کہتے اور مزہود لہ تو ضرور ہوا کہ جس طرف سے دل کو پھیراہے اس کو مرغوب شئی من وجہ ہوورنہ یہ پھیرنا زہد نہ کہلائے گا جیسا کہ تارک حجر و تراب کا زاہد نہ کہلائے گا برخلاف تارک اہم و دنا نیر کے اور شرط مرغوب فیہ کی یہ ہے کہ بہتر ہواس کے نزدیک مرغوب عنہ سے اس لیے کہ بائع اقدام نہیں کرتا بیع پر جب تک کہ نہیں سمجھ لیتا کہ ثمن بہتر ہے مبیع سے پس وہ کہا جاتا ہے باعتبار بیع کے زاہد اور باعتبار ثمن کے راغب اسی طرح کہا جاتا ہے زاہد باعتبار دنیا کے اور راغب باعتبار عقبیٰ کے یا زاہد کہا جاتا ہے باعتبار ماسوا کے اور راغب باعتبار مولیٰ کے اور مراد علم سے اس مقام میں وہ علم ہے کہ مثمر ہوئے اس حال کا جواوپر مذکور ہوا اور وہ یہ ہے کہ شئے متروک کو حقیر جانے باعتبار شئے ماخوذ کے اور جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا جیسے بائع جب تک کہ ثمن کو مبیع سے بہتر نہ سمجھ لے تب تک ترک مبیع اور اخذ ثمن جائز نہیں رکھتا، اسی طرح جس شخص نے بخوبی جان لیا کہ دنیا فانی ہے بمنزلہ برف کے اور عقبیٰ باقی اور بہتر ہے بمنزلہ درنا نیر کے ،پس اس کو برف کا دینار سے دشوارنہیں خصوصاً ایسے حال میں کہ برف دھوپ میں گھلتی ہو اور قیمت ہزار گنی لاگت سے ملتی ہو اور مشتری اس کا امین ہو اور خازن برف خائن پس یہ علم جب درجہ یقین کو پہنچتا ہے حالت مذکورہ کو کمال قوت دیتا ہے اور واقع برف سے دنیا جلدی فانی ہونے والی ہے اس لیے وہ فقط گرمی میں گھلتی ہے اور یہ گرمی ،جاڑے ،برسات بلکہ دن رات معرض زوال میں ہے اور عقبیٰ دراہم و دینار سے ہزار درجہ اولیٰ ،اس لیے ک یہ بھی فانی ہیں اگر چہ برف سے فنا ان کی متاخر ہو بخلاف عقبیٰ کے کہ ابدالآباد ہے اور فنا و زوال کا ہر گز اس میں مجال نہیں اور مراد عمل سے ترک مطلق ہے اور بدل دنیا اس چیز کا جو ادنیٰ ہے اور لے لینا اعلیٰ کا اس کے عوض میں اسی طرح زہد واجب کرتا ہے مزہود فیہ کے تر کو بالکلیہ اور وہ ساری دنیا ہے مع اسباب اور متعلقات اور مقدمات اپنے پس نکال دے اپنے دل سے محبت اس کی اور داخل کرے اس کے عوض میں محبت طاعات و عبادات کی اور اتباع سنن اور ریاضات کی اور نکال دے اس چیز کو ہاتھ سے اور آنکھوں سے جیسے نکال دیا دل سے اور مشغول کرے چشم و دل کو وظائف طاعات میں جیسا کہ مشغول تھے پہلے دنیا کی لذت میں اور اور مستثیر ہو اس بیع و بدل کے ساتھ (كَذَ ذَكَرَ الْغَزَالِىُّ)اور باقی احکام زہد کے ضمن میں احادیث میں مذکور ہوں گے۔
عبیداللہ بن محصن خطمی ؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھریا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی‘‘۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱۔ یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف مروان بن معاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۲۔ اور (حيزت) کا مطلب یہ ہے کہ جمع کی گئی ۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ امن وصحت کے ساتھ ایک دن کی روزی والی زندگی دولت کے انبار والی اس زندگی سے کہیں بہترہے جو امن وصحت والی نہ ہو، گویا انسان کو مال ودولت کے پیچھے زیادہ نہیں بھاگناچاہئے بلکہ صبروقناعت کا راستہ اختیارکرنا چاہئے کیونکہ امن وسکون اور راحت وآسائش اسی میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ubaydullah ibn Mihsan Khatami (RA) reported from his father who was a sahabi that Allah’s Messenger (ﷺ) said, “He who wakes up in the morning peaceful among his people, healthy in body, his provision for the day with him, then it is as though the world is brought together for him.” [Ibn e Majah4141]