صاحب نہایہ نے کہا کہ جہنم لفظ عجمی ہے اور بعضوں نے کہا عربی ہے موسوم ہوا وہ اس نام سے بسبب بعد قعر اپنے کے اسی سے ہے قول عرب کا رَكَبَهُ جِهْنَامٌ بكسر جيم وہا و تشدید نون یعنی کنواں بعیدالقعر اور اسی سے ہے حدیث’’يقال لهم الجهنميون‘‘یعنی ان کو جہنمی کہیں گے ۔ مراد ان سے وہ لوگ ہیں کہ جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہوں گے، اور اعتقاء اللہ کہلائیں گے اور ان کو جہنمی کہتے ہیں ‘تنقیص شان منظور نہیں بلکہ تذکیر ہے ان کے نجات کی تا کہ سبب ہو مزید شکر و فرح کا اور حاصل ہوا ان کو مسرت فوزنجات پر اور اہل علم نے کہا ہے کہ ہے کہ جہنم اعلیٰ درکاتِ نار ہے کہ محتص عصاۃِ امت محمدﷺ کے لیے اور وہی ہے کہ چند روز میں اپنے ساکنوں سے خالی ہو جائے گی ،اور ہوائیں اس کے دروازوں کو بجائیں گی غرض وہ پہلا طبقہ ہے دوزخ کا نہایت خفیف العذاب بہ نسبت اور طبقات کے پھر اس کو جہنم اس لیے کہا کہ وہ تجہم کرتی ہے عورتوں اور مردوں کے مونہوں پر اور کھا جاتی ہے ان کے گوشتوں کو اور دوسرا طبقہ لظیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نزاعة للشوى یعنی کھا جانے والی اطراف ِ یدین اور جلین کو ۔لغت میں شویٰ ہاتھ پیر کے کناروں کو کہتے ہیں مجاہد نے کہا شویٰ سے مراد سر کی کھال ہے ابراہیم نے کہا کھینچ لیتی ہے لحم کو عظام سے ضحاک نے کہا جلد و لحم کو عظام سے کھینچ لیتی ہے ابن عباس نے فرمایا عصب اور عقب کو کھینچ لیتی ہے کلبی نے کہا خوراک اس آ گ کی ام دماغ ہے کہ جب وہ اسے کھا جاتی ہے پھر ازسر نو عود کرتا ہے یہی اس کا داب ہے قتادہ نے کہا مکارم خلق کھا جاتی ہے ابوالعالیہ نے کہا محاسن وجہ نگل جاتی ہے بلاتی ہے جو پیٹھ موڑے حق سے اور تولی کرے شریعت محمدیہ على صاحبها الصلوة والتحیہ سے ۔
تیسرا طبقہ سَقَرَ ہے اور سقر اس لیے کہا کہ کھا جاتی ہے گوشت عورتوں اور مردوں کے کہ نہیں باقی رہتا ان کی ہڈیوں پر گوشت اور اللہ تعالیٰ نے اس حال میں فرمایا (لاَ تُبْقِى وَلاَ تَذَرْ)یعنی نہ باقی رکھتی ہے نہ چھوڑتی ہے انتہیٰ۔بغوی نے فرمایا: نہیں باقی رکھتی کوئی چیز مگر کھا جاتی ہے اور اسے ہلاک کر دیتی ہے۔ مجاہد نے کہا نہ مرنے دیتی ہے نہ جینے دیتی ہے ۔سدی نے کہا باقی نہیں رکھتی ہے لحم کو نہ چھوڑتی ہے ہڈیوں کو۔ضحاک نے کہا:جب وہ انہیں پکڑتی ہے باقی نہیں رکھتی کوئی جگہ اور جب یہ اس کی طرف جاتے ہیں نہیں چھوڑتی ان کو اور ہر شی کو ملالت اور فترت ہے ،مگر جہنم کو (لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ) یعنی چمکنے والی ہے پنڈے پر اور مغیر ہے جلد کی کہ اس کو کالا کر دیتی ہے عرب کہتا ہے لاَ حَهُ السَّقَمُ وَالْحُزن یعنی رنگ بدل دیا اور صورت متغیر کر دی اس کی مرض اور غم نے۔ مجاہد نے کہا جھلسا دیتی ہے جلد کو یہاں تک کالی ہو جاتی ہ وہ شب تاریک سے زیادہ ۔ابن عباس اور زید بن اسلم نے فرمایا مُحْرِقَةٌ لِِلْجِلْدِ- ابن کیسان نے کہا دور سے نظر پڑے گی ان کو جہنم لواحہ یعنی دور سے نظر آنے والی جیسے فرمایا (وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَاوِينَ)اور بشر جمع ہے بشرہ کی ۔
چوتھا طبقہ حطمہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ)یعنی ڈالا جائے گا وہ حطمہ میں انتہی۔ اور حطمہ حطم سے مشتق ہے حطم لغت میں توڑنے کو کہتے ہیں حطمہ اسے اس لیے کہا کہ وہ ہڈی پسلی کفار کو توڑ ے گی اور عظام راس ہر خناس کا پھوڑے گی ۔بیضاوی نے فرمایا اس کی شا ن یہ ہے کہ جوڈالو توڑ ڈالے ‘اللہ تعالیٰ نے خود اس کی شان میں فرمایا (نَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ)یعنی وہ آگ ہے اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی کہ چمکتی ہے دلوں پر انتہی اور اس آیت میں کما ل تخویف ہے اس نار سے نہایت مبالغہ ہے اس کے ایقاد اور بھڑکانے کا،اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے کہ ہماری بھڑکائی ہوئی ہے پھر کسی کی کیا مجال ہے کہ اسے بجھا سکے یا اس کے التہاب اور اشتغال کو مٹا سکے ۔ اللھم اجرما منہ (کذافی البیضاوی) چمکتی ہے دلوں پر اثر اس کے الم اور وجع کا اور درد اس کے الہب اور احراق کا پہنتا ہے دلوں تک ۔اور اطلاع اور بلوغ اور تطلع سب کے ایک معنی ہیں عرب کہتا ہے مَتَى "طَلَعَتْ اَرْضَنَا" اَىْ بَلَغَتْ یعنی کب پہنچے تم ہمارے ملک میں مراد آیۃ یہ ہے کہ وہ جلا دیتی ہے عظیم و لحم و جلد کو یہاں تک کہ پہنچ جاتی ہے دل تک یہی قول ہے قرطبی کا (إنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ) یعنی مَطْبَقَةً مُغْلَبَةٌ (فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ)-حمزہ اور کسائی اور ابوبکر نے عُمُد بضم عین و میم پڑھا ہے اور دوسرے قاریوں نے بفتحھا یعنی وہ مندی ہوئی ے لمبے لمبے ستونوں میں ۔انتہی اور عمد بضم اولين و بفتحها جمع هى عمود کی مثل ادیم کے کی جمع ہے اس کی ادم اور آدم دونوں آتی ہے یہ قول ہے فراء کا اور ابوعبیدہ نے کہا جمع عماد کی ہے مثل اہاب اور اُہُب کے ۔بیضاوی نے فرمایا باندھے گئے وہ عمودے میں کہ مثل مقاطر کے ہے کہ جس میں قید کیے جاتے ہیں لصوص اور مقاطرہ وہ لکڑی ہے دراز ہے کہ اس میں سوراخ ہوتے ہیں موافق پیروں کے اس میں چوروں کا پیر ڈال کر قفل لگا دیتے ہیں اہل ہند اسے کاٹ ٹھوکنا بولتے ہیں بعض اسے لاٹ کہتے ہیں ۔قتادہ نے کہا پہنچا ہے ہم کو کہ وہ ستون ہیں کہ معذب ہوں گے اہل نار اس سے ۔ اور بعضوں نے کہا ہے وہ میخیں ہیں قفل درکی کہ بند کیے جائیں گے اس سے دروازے ۔مقاتل نے کہا کہ بند کیے گئے دروازے ان پر پھر ماری گئیں اس میں میخیں لوہے کی جو آگ سے تھیں یہاں تک ہ گٹھن اور گرمی نے اس کی گھیر لیا مجوسین کو اور نہ کھلے گا ان پر کوئی دروازہ نہ داخل ہوگی ان پر ہوائے بیرونی اور ممددہ صفت ہے عمد کی یعنی مطلولہ کہ دراز میخ زیادہ مضبوط ہوتی ہے قیصر سے۔
پانچواں طبقہ جحیم ہے وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ وہ عظیم الجمرہ چنگاری ہے کہ ایک ایک چنگار یاس کی ساری دنیا سے بڑھ کر ہے بیضاوی نے فرمایا الجحیم المتاجع من النار یعنی آگ شعلہ دار ۔اور بغوی نے کہا الجحیم معظم النار بعض نے کہا نَارٌ شديدة التاجع یعنی جحیم ما عظم من النار (یقظہ)۔
چھٹا طبقہ سعیر ہے اس لیے اس سعیر کہا کہوہ سلگانے والی ہے آگ کی اس میں تین سو قصر ہیں ہر قصر میں تین سو بیت ہیں ہر بیت میں تین سو طرح کا عذاب ہے اور اس میں سانپ اور بچھو ہیں اور قیود اور سلاسل اور اغلال اور انکال اور اسی میں ہ جب الحزن اور اس سے اشد عذاب کسی طبقہ میں نہیں جب جُبُ الحُزن کھولا اہل نار حزن شدید ہوتا ہے (یقظہ)
ساتواں طبقہ ہاویہ ہے کہ جو اس میں گرا کبھی نہ نکلا اسی میں ہ بیرالہب کہ جب کھولا جاتا ہے دوزخ اس سے پناہ مانگتی ہے ۔اور اسی میں ہے صعود کہ وہ ایک پہاڑ ہے کہ چڑھیں گے دشمنان خدا اس پر اپنے منہ کے بل بندھے ہوں گے ہاتھ ان کے گردنوں میں اور زبانیہ کھڑے ہوں گے ان کے سروں پر ان کے ہاتھوں میں مونگریاں ہیں غشاوہ اس کا ظلمت ہے زمین اس کی تانبے کی ہے اور صاص اور زجاج کی اوپر نیچے اس کے آگ ہے اوپر ان ظل ہیں نار کے اور نیچے ان کے ظل ہیں سلگائے گئے وہ ہزار برس تک کہ وہ سرخ ہوگئے پھر ہزار بر س تک کہ سپید ہو گئے پھر ہزار برس تک کہ سیاہ ہوگے ۔اب وہ نہایت تیرہ تاریک ہے اور ممزوج ہے ساتھ غضب الٰہی کے (یقظہ) یہ ہے تفصیل اس کے طبقات کی اور تفصیل اس کے احوال و اہوال کی ضمن ابواب میں اور کچھ خاتمہ میں مذکور ہوگی انشاءاللہ تعالیٰ۔