Tarimdhi:
Chapters On Zuhd
(Chapter: What Has Been Related About Protecting The Tongue)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
2612.
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جسے اللہ نے اس کی ٹانگوں اور ڈاڑھوں کے درمیان کی چیز کے شرو فساد سے بچالیا وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔۲۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمان ہے، یہ عزہ ٔ اشجعیہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور کوفی ہیں اورسہل بن سعد سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمہ بن دینار ہے جو زاہد مدنی ہیں۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 22 :
أخرجه الترمذي ( 2 / 66 ) من طريق ابن عجلان عن أبي حازم عن أبي هريرة
قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره .
و قال : " هذا حديث حسن غريب و أبو حازم اسمه سلمان مولى عزة الأشجعية " .
قلت : و هو ثقة محتج به في " الصحيحين " و كذلك سائر الرواة إلا ابن عجلان
و اسمه محمد فأخرج له مسلم في " الشواهد " و هو حسن الحديث . و للحديث شاهد
يرويه تميم بن يزيد مولى بني زمعة عن رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه
وسلم قال : خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ثم قال : فذكر نحوه .
أخرجه أحمد ( 5 / 362 ) عن عثمان يعني ابن حكيم عنه و رجاله ثقات رجال مسلم غير
تميم هذا و قد ذكره ابن أبي حاتم في كتابه ( 1 / 1 / 442 ) بهذه الطريق و لم
يذكر فيه جرحا و لا تعديلا و ذكره كذلك ابن حبان في " الثقات " ( 1 / 5 ) لكنه
ذكر أنس بن مالك بدل رجل له صحبة .
ثم رأيت الحديث قد أخرجه الحاكم ( 4 / 357 ) من الطريق الأولى عن أبي هريرة
و من طريق أبي واقد عن إسحاق مولى زائدة عن محمد ابن عبد الرحمن بن ثوبان عن
أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " من حفظ ما بين لحييه و رجليه
دخل الجنة " . و قال : " صحيح الإسناد و أبو واقد هو صالح بن محمد " . و وافقه
الذهبي .
قلت : صالح هذا قال الذهبي في " الميزان " : مقارب الحال ، ثم ذكر أقوال الأئمة
فيه و كلها متفقة على تضعيفه إلا قول أحمد الآتي و قد أورده في " الضعفاء "
و قال : " قال أحمد : ما أرى به بأسا ، و قال الدارقطني و جماعة ضعيف " .
و قال الحافظ في " التقريب " : " ضعيف " .
قلت : فمثله يستشهد به إن شاء الله تعالى .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2608
٧
ترقيم دار الغرب الإسلامي (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار الغرب الاسلامی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2409
٩
ترقيم أحمد شاكر (دار الدعوة السلفية)
ترقیم احمد شاکر (دار الدعوۃ السلفیہ)
2409
تمہید کتاب
زہد بالفتح لغت میں بمعنی قدروارد ہوا ہے چنانچہ عرب کہتا ہے۔خُذْزَهْدَ مَا يَكْفِيْكَ اور زهد بالضم بے رغبتی اور طیب کسب اور اور قصرَامل اور زَہَدَ بفتحتین زکوٰۃ ،اور زاہد بے رغبتی کرنے والا اور زاہد بن عبداللہ اور ابوزاہد نام ہے دوبڑے محدثوں کا اور زہاد وہ زمین کہ بغیر آب کثیر کے رواں نہ ہوا اور زہید ہر چیز سے تھوڑے کو کہتے ہیں اور زَہَدَ فیہ یعنی بے رغبتی کی اس چیز سے اور اسی سے قول اللہ تعالیٰ کا (وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ)یعنی بے رغبتی کرنے والے تھے یوسف سے بھائی اس کے اور تزہید کسی کو زہد پر برانگیختہ کرنا (منتہی الارب)اور اصطلاح شر ح میں زہد بے رغبتی کرنا ہے دنیا فانی سے واسطے حصول نعما اور باقیہ اخروی کے اور یہ اولیٰ ہے درجہ ہے اور بے رغبتی کرنا ہے غیر خدا سے واسطے تحصیل و صال الٰہی کے اور قرب اس کے اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اور ترک کرنا حظ نفس کا با ختیار خود اور وہ مرکب ہے حال ہور علم اور عمل سے مراد حال سے رغبت قلبی کا پھیرنا ہے ایک ادنیٰ چیز سے طرف اعلیٰ چیز کے پس جس طرف سے دل کو پھیرا ہے اس کو مرغوب عنہ کہتے ہیں اور مزہودفیہ اور جدھر پھیرا ہے اسے مرغوب فیہ کہتے اور مزہود لہ تو ضرور ہوا کہ جس طرف سے دل کو پھیراہے اس کو مرغوب شئی من وجہ ہوورنہ یہ پھیرنا زہد نہ کہلائے گا جیسا کہ تارک حجر و تراب کا زاہد نہ کہلائے گا برخلاف تارک اہم و دنا نیر کے اور شرط مرغوب فیہ کی یہ ہے کہ بہتر ہواس کے نزدیک مرغوب عنہ سے اس لیے کہ بائع اقدام نہیں کرتا بیع پر جب تک کہ نہیں سمجھ لیتا کہ ثمن بہتر ہے مبیع سے پس وہ کہا جاتا ہے باعتبار بیع کے زاہد اور باعتبار ثمن کے راغب اسی طرح کہا جاتا ہے زاہد باعتبار دنیا کے اور راغب باعتبار عقبیٰ کے یا زاہد کہا جاتا ہے باعتبار ماسوا کے اور راغب باعتبار مولیٰ کے اور مراد علم سے اس مقام میں وہ علم ہے کہ مثمر ہوئے اس حال کا جواوپر مذکور ہوا اور وہ یہ ہے کہ شئے متروک کو حقیر جانے باعتبار شئے ماخوذ کے اور جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا جیسے بائع جب تک کہ ثمن کو مبیع سے بہتر نہ سمجھ لے تب تک ترک مبیع اور اخذ ثمن جائز نہیں رکھتا، اسی طرح جس شخص نے بخوبی جان لیا کہ دنیا فانی ہے بمنزلہ برف کے اور عقبیٰ باقی اور بہتر ہے بمنزلہ درنا نیر کے ،پس اس کو برف کا دینار سے دشوارنہیں خصوصاً ایسے حال میں کہ برف دھوپ میں گھلتی ہو اور قیمت ہزار گنی لاگت سے ملتی ہو اور مشتری اس کا امین ہو اور خازن برف خائن پس یہ علم جب درجہ یقین کو پہنچتا ہے حالت مذکورہ کو کمال قوت دیتا ہے اور واقع برف سے دنیا جلدی فانی ہونے والی ہے اس لیے وہ فقط گرمی میں گھلتی ہے اور یہ گرمی ،جاڑے ،برسات بلکہ دن رات معرض زوال میں ہے اور عقبیٰ دراہم و دینار سے ہزار درجہ اولیٰ ،اس لیے ک یہ بھی فانی ہیں اگر چہ برف سے فنا ان کی متاخر ہو بخلاف عقبیٰ کے کہ ابدالآباد ہے اور فنا و زوال کا ہر گز اس میں مجال نہیں اور مراد عمل سے ترک مطلق ہے اور بدل دنیا اس چیز کا جو ادنیٰ ہے اور لے لینا اعلیٰ کا اس کے عوض میں اسی طرح زہد واجب کرتا ہے مزہود فیہ کے تر کو بالکلیہ اور وہ ساری دنیا ہے مع اسباب اور متعلقات اور مقدمات اپنے پس نکال دے اپنے دل سے محبت اس کی اور داخل کرے اس کے عوض میں محبت طاعات و عبادات کی اور اتباع سنن اور ریاضات کی اور نکال دے اس چیز کو ہاتھ سے اور آنکھوں سے جیسے نکال دیا دل سے اور مشغول کرے چشم و دل کو وظائف طاعات میں جیسا کہ مشغول تھے پہلے دنیا کی لذت میں اور اور مستثیر ہو اس بیع و بدل کے ساتھ (كَذَ ذَكَرَ الْغَزَالِىُّ)اور باقی احکام زہد کے ضمن میں احادیث میں مذکور ہوں گے۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جسے اللہ نے اس کی ٹانگوں اور ڈاڑھوں کے درمیان کی چیز کے شرو فساد سے بچالیا وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ۲۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمان ہے، یہ عزہ ٔ اشجعیہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور کوفی ہیں اورسہل بن سعد سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمہ بن دینار ہے جو زاہد مدنی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that Allah’s Messenger (ﷺ) ,”He whom Allah has protected from the mischief of that which is between his jaws and that what is between his legs will enter Paradise.”