تشریح:
وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ ہر نماز اور نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جائے گی، کیونکہ اس کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔
۲؎: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات نبوی کے بعد حدیث کے سب سے بڑے راوی اور جانکار صحابی ابوہریرہ رضی الله عنہ کا یہ قول اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ خواہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو پڑھنی فرض ہے اور یہ کہ یہ مسئلہ منسوخ نہیں ہوا ہے۔
۳؎: فرمایا تو تھا ’’میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے، اور جب اس تقسیم کی تفصیل بیان کی تو سورہ فاتحہ کا نام لیا اور اس کی تقسیم بتائی، پتا چلا کہ نماز فاتحہ ہے، اور فاتحہ صلاۃ ہے، یعنی ’’فاتحہ‘‘ نماز کا ایسا رنگ ہے جو نماز کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا آدھا حصہ اللہ کی حمد وثنا اور اس کی رحمت وربوبیت اور عدل وبادشاہت کے بیان میں ہے اور آدھا حصہ دعاء ومناجات پر مشتمل ہے جسے بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد صحيح؛ على شرط مسلم، وقد أخرجه كما يأتي. والحديث عند مالك في "الموطأ" (1/106- 107) ... بهذا الإسناد. وأخرجه عنه: مسلم (2/9- 10) ، وأبو عوانة (2/126) ، والبخاري في "خلق أفعال العباد" (ص 74) ، والنسائي (1/144- 145) ، وأحمد (2/460) كلهم عنمالك... به. وأخرج مسلم وأبو عوانة، والبخاري في "جزاء القراءة (ص 19) من طرق أخرى عن العلاء... به. وكذلك أخرجه الترمذي (4/66) - وقال: " حديث حسن "-، وأحمد
(2/241 و 250 و 285) ، وابن ماجه (838) .