تشریح:
وضاحت:
۱؎: مسلمانو! جب تم میں سے کسی کے مرنے کا وقت آن پہنچے تو وصیت کرنے کے وقت تم مسلمانوں میں سے دو عادل گواہ موجود ہونے چاہیں (مائدہ: ۱۰۷)۔
۲؎: اے ایمان والو! تمہارے آپس میں کے (مسلمانوں یا عزیزوں میں سے) معتبر شخصوں کا گواہ ہونا مناسب ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم میں سے ہوں یا اور مذہب کے لوگوں میں سے دو شخص ہوں، اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور موت آ جائے اگر تم کو شبہ ہو تو ان دونوں کو بعد نماز (عصر) کے کھڑا کر لو پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس قسم کے عوض کوئی نفع نہیں لینا چاہتے اگرچہ کوئی رشتہ دار بھی ہو اور نہ ہی ہم اللہ تعالیٰ کی گواہی کو پوشیدہ رکھیں گے، اگر ہم ایسا کریں، تو ہم اس حالت میں سخت گنہگار ہوں گے، (یوں قسم کھا کر وہ گواہی دیں) پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے کہ جن کے مقابلے میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ بالیقین ہماری قسم ان دونوں کی اس قسم سے زیادہ راست ہے اور ہم نے ذرا تجاوز نہیں کیا اگر ہم بھی ایسا کریں تو ہم اس حالت میں سخت ظالم ہوں گے، یہ قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وہ لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ظاہر کریں یا اس بات سے ڈر جائیں کہ ان سے قسمیں لینے کے بعد قسمیں الٹی پڑ جائیں گی، اور اللہ سے، ڈرتے رہو اور اس کا حکم کان لگا کر سنو! اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو (یعنی فاسقوں اور مجرموں کو) ہدایت کے راستے میں نہیں لگایا کرتا (المائدۃ: ۱۰۶تا ۱۰۸)۔
نوٹ: (سند میں باذان مولی ام ہانی سخت ضعیف راوی ہے)