قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ​)

حکم : حسن 

3115. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي الْيَسَرِ قَالَ أَتَتْنِي امْرَأَةٌ تَبْتَاعُ تَمْرًا فَقُلْتُ إِنَّ فِي الْبَيْتِ تَمْرًا أَطْيَبَ مِنْهُ فَدَخَلَتْ مَعِي فِي الْبَيْتِ فَأَهْوَيْتُ إِلَيْهَا فَتَقَبَّلْتُهَا فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ قَالَ اسْتُرْ عَلَى نَفْسِكَ وَتُبْ وَلَا تُخْبِرْ أَحَدًا فَلَمْ أَصْبِرْ فَأَتَيْتُ عُمَرَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ اسْتُرْ عَلَى نَفْسِكَ وَتُبْ وَلَا تُخْبِرْ أَحَدًا فَلَمْ أَصْبِرْ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ أَخَلَفْتَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فِي أَهْلِهِ بِمِثْلِ هَذَا حَتَّى تَمَنَّى أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ أَسْلَمَ إِلَّا تِلْكَ السَّاعَةَ حَتَّى ظَنَّ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ قَالَ وَأَطْرَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَوِيلًا حَتَّى أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفَيْ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ إِلَى قَوْلِهِ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ قَالَ أَبُو الْيَسَرِ فَأَتَيْتُهُ فَقَرَأَهَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصْحَابُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِهَذَا خَاصَّةً أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّةً قَالَ بَلْ لِلنَّاسِ عَامَّةً قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ضَعَّفَهُ وَكِيعٌ وَغَيْرُهُ وَأَبُو الْيَسَرِ هُوَ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ وَرَوَى شَرِيكٌ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هَذَا الْحَدِيثَ مِثْلَ رِوَايَةِ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ

مترجم:

3115.

ابوالیسر ؓ کہتے ہیں: ایک عورت میرے پاس کھجور خرید نے آئی، میں نے اس سے کہا: (یہ کھجور جو یہاں موجود ہے جسے تم دیکھ رہی ہو) اس سے اچھی اور عمدہ کھجور گھر میں رکھی ہے۔ چنانچہ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ گھر میں آ گئی، میں اس کی طرف مائل ہو گیا اور اس کو چوم لیا، تب ابوبکر ؓ کے پاس آ کر ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا، انہوں نے کہا: اپنے نفس (کی اس غلطی) پر پردہ ڈال دو، توبہ کرو دوسرے کسی اور سے اس واقعہ کا ذکر نہ کرو، لیکن مجھ سے صبر نہ ہو سکا چنانچہ میں عمر ؓ کے پاس آیا اور ان سے بھی اس (واقعہ) کا ذکر کیا، انہوں نے بھی کہا: اپنے نفس کی پردہ پوشی کرو، توبہ کرو اور کسی دوسرے کو یہ واقعہ نہ بتاؤ۔ (مگر میرا جی نہ مانا) میں اس بات پر قائم نہ رہا،اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کرآپﷺ کو بھی یہ بات بتا دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم نے ایک غازی کی بیوی کے ساتھ جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلا ہے اس کی غیر موجود گی میں ایسی حرکت کی ہے‘‘؟ آپﷺ کی اتنی بات کہنے سے مجھے اتنی غیرت آئی کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوتا بلکہ اب لاتا اسے خیال ہوا کہ وہ تو جہنم والوں میں سے ہو گیا ہے رسول اللہ ﷺ (سوچ میں) کافی دیر تک سر جھکائے رہے یہاں تک کہ آپﷺ پر بذریعہ وحی آیت ﴿وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيَ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ﴾ نازل ہوئی۔ ابوالیسر ؓ کہتے ہیں: (جب) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! کیا یہ (بشارت) ان کے لیے خاص ہے یا سبھی لوگوں کے لیے عام ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ سبھی لوگوں کے لیے عام ہے‘‘۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۔ قیس بن ربیع کو وکیع وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اورابوالیسر کعب بن عمرو ؓ ہیں۔
۳۔ شریک نے عثمان بن عبداللہ سے یہ حدیث قیس بن ربیع کی روایت کی طرح روایت کی ہے۔
۴۔ اس باب میں ابوامامہ اور واثلہ بن اسقع اورانس بن مالک‬ ؓ س‬ے بھی احادیث آئی ہیں۔