قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَائَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَائَةِ​)

حکم : صحیح 

312. حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ قَالَ فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الصَّلَوَاتِ بِالْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَابْنُ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ عُمَارَةُ وَيُقَالُ عَمْرُو بْنُ أُكَيْمَةَ وَرَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ وَذَكَرُوا هَذَا الْحَرْفَ قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا يَدْخُلُ عَلَى مَنْ رَأَى الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ لِأَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ هُوَ الَّذِي رَوَى عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ وَرَوَى أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ فَقَالَ لَهُ حَامِلُ الْحَدِيثِ إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ وَرَوَى أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِيَ أَنْ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَاخْتَارَ أَكْثَرُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ أَنْ لَا يَقْرَأَ الرَّجُلُ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ وَقَالُوا يَتَتَبَّعُ سَكَتَاتِ الْإِمَامِ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ أَنَا أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَالنَّاسُ يَقْرَءُونَ إِلَّا قَوْمًا مِنْ الْكُوفِيِّينَ وَأَرَى أَنَّ مَنْ لَمْ يَقْرَأْ صَلَاتُهُ جَائِزَةٌ وَشَدَّدَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْكِ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَالُوا لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَحْدَهُ كَانَ أَوْ خَلْفَ الْإِمَامِ وَذَهَبُوا إِلَى مَا رَوَى عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَرَأَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَتَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَإِسْحَقُ وَغَيْرُهُمَا وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَيْثُ قَالَ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَنَّ هَذَا إِذَا كَانَ وَحْدَهُ وَاخْتَارَ أَحْمَدُ مَعَ هَذَا الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَأَنْ لَا يَتْرُكَ الرَّجُلُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ

مترجم:

312.

ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس نماز سے فارغ ہونے کے بعد جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی تھی تو فرمایا: ’’کیا تم میں سے ابھی کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے؟‘‘ ایک شخص نے عرض کیا: ہاں اللہ کے رسول! (میں نے کی ہے) آپ نے فرمایا: ’’تبھی تو میں یہ کہہ رہا تھا: آخر کیا بات ہے کہ قرآن کی قرأت میں میری آواز سے آواز ٹکرائی جا رہی ہے اور مجھ پر غالب ہونے کی کوشش کی جاری ہے‘‘، وہ (زہری) کہتے ہیں: تو جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کے ان نمازوں میں قرأت کرنے سے رک گئے جن میں آپ بلند آواز سے قرأت کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے۔
۲- ابن اکیمہ لیثی کا نام عمارہ ہے انہیں عمرو بن اکیمہ بھی کہا جاتا ہے، زہری کے دیگر تلامذہ نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اسے ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے: قَالَ الزُّهْرِيُّ فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ (زہری نے کہا کہ لوگ قرأت سے رک گئے جس وقت ان لوگوں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا)۔
۳- اس باب میں ابن مسعود، عمران بن حصین اور جابر بن عبداللہ‬ ؓ س‬ے بھی احادیث آئی ہیں۔
۴- اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے لیے رکاوٹ کا سبب بنے جن کی رائے امام کے پیچھے بھی قرأت کی ہے، اس لیے کہ ابو ہریرہ ؓ ہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے اور انہوں نے ہی نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ’’جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، نا تمام ہے‘‘ تو ان سے ایک شخص نے جس نے ان سے یہ حدیث اخذ کی تھی پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں؟) تو انہوں نے کہا: تم اِسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ ابو عثمان نہدی سے روایت ہے کہ ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے یہ حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
۵- اکثر محدّثین نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ جب امام بلند آواز سے قرأت کرے تو مقتدی قرأت نہ کرے، اور کہا ہے کہ وہ امام کے سکتوں کا تتبع کرتا رہے، (یعنی وہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لیا کرے۔
۶- امام کے پیچھے قرأت کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثراہل علم امام کے پیچھے قرأت کے ق ائل ہیں، مالک بن انس،عبداللہ بن مبارک شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے قرأت کرتا ہوں اور لوگ بھی کرتے ہیں سوائے کوفیوں میں سے چند لوگوں کے، اور میرا خیال ہے کہ جو نہ پڑھے اس کی بھی نماز درست ہے۔
۷- اور اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس سلسلہ میں سختی برتی ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سورہ فاتحہ کا چھوڑنا جائز نہیں اگرچہ وہ امام کے پیچھے ہو، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیرسورہ فاتحہ کے نماز کفایت نہیں کرتی، یہ لوگ اس حدیث کی طرف گئے ہیں جسے عبادہ بن صامت نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ اور خود عبادہ بن صامت ؓ نے بھی نبی اکرم ﷺ کے بعد امام کے پیچھے قرأت کی ہے، ان کا عمل نبی اکرم ﷺ کے اسی قول پر رہا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا بھی قول ہے۔
۸- رہے احمد بن حنبل تو وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے قول ’’سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اکیلے نماز پڑھ ہا ہو تب سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہو گی۔ انہوں نے جابربن عبداللہ ؓ کی حدیث سے یہ استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ ’’جس نے کوئی رکعت پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو‘‘۱؎۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں ایک شخص ہیں اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے قول ’’سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکیلے پڑھ رہا ہو۔ ان سب کے باوجود احمدبن حنبل نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے ہی کو پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ آدمی سورہ فاتحہ کو نہ چھوڑے اگرچہ امام کے پیچھے ہو۔