تشریح:
وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں اس بات کی گواہی اللہ کے رسولﷺ کی زبان سے ہے کہ قتل ہونے کے وقت عمار حق والی جماعت کے ساتھ ہوں گے اور ان کے قاتل اس بابت حق پر نہیں ہوں گے، اور اس حق وناحق سے مراد اعتقادی (توحیدوشرک کا) حق وناحق نہیں مراد ہے بلکہ اس وقت سیاسی طور پر حق ونا حق پر ہو نے کی گواہی ہے، عمار اس وقت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو اس وقت خلیقہ برحق تھے، اور فریق مخالف معاویہ رضی اللہ عنہ تھے جو علی رضی اللہ عنہ سے خلافت کے سیاسی مسئلہ پر جنگ کر رہے تھے ، اس میں عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تھی، یہ جنگ صفین کا واقعہ ہے اس واقعہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ جو علی سے برسرپیکار ہو گئے تھے، یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی جو معاف ہے، (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 335 :
أخرجه الترمذي ( 2 / 310 ) من طريق العلاء بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره و قال : " حديث حسن صحيح " .
قلت : و إسناده صحيح على شرط مسلم . و قد أخرجه في " صحيحه " ( 8 / 185 ، 186 )
و أحمد ( 5 / 306 ، 306 - 307 ) من حديث أبي سعيد الخدري قال : أخبرني من هو
خير مني ( أبو قتادة ) أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعمار حين جعل يحفر
الخندق و جعل يمسح رأسه و يقول : " بؤس ابن سمية ، تقتلك ... " الحديث .
و أخرجه البخاري ( 1 / 124 ، 2 / 205 ) و أحمد ( 3 / 5 ، 22 ، 28 ، 91 ) من
طريق أخرى عن أبي سعيد في قصة بناء المسجد ، قال : " فرآه النبي صلى الله عليه
وسلم ، فجعل ينفض التراب عنه و يقول : " ويح عمار تقتله الفئة الباغية يدعوهم إلى الجنة و يدعونه إلى النار " قال عمار : أعوذ بالله من الفتن . و قد ورد الحديث عن جماعة آخرين من الصحابة عند مسلم و أحمد ( 2 / 161 ، 164 ، 206 ، 4 / 197 ، 179 ، 5 / 215 ، 6 / 289 ، 300 ، 311 ، 315 ) و ابن سعد في " الطبقات " ( 1 / 2 / 3 ، 3 / 1 / 177 ، 180 ، 181 ، 185 ) و أبي نعيم في " الحلية " ( 4 /
361 ، 7 / 198 ) و الحاكم في " المستدرك " ( 3 / 386 - 387 ) و الخطيب في " التاريخ " ( 11 / 218 ) .