تشریح:
۱؎: استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں، چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے ’’دعائے استخارہ‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے، استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے، فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہاتِ شرعیہ سے اجتناب ہر حا ل میں ضروری ہے، ان میں استخارہ نہیں ہے۔
۲؎: یعنی: لفظ ((هَذَا الْأَمْرَ)) ’’یہ کام‘‘ کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔ اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے، ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کر سکے اور اُسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے، یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہو چکا ہے یہ نری بدعت ہے، استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک، تین پانچ یا سات بار کیا جائے، دل کا اطمینان، مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہو جائے اُسے آدمی اختیار کر لے، خواب میں بھی اس کی وضاحت ہو سکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے، عورتیں بھی استخارہ خود کر سکتی ہیں، کہیں پر ممانعت نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وأخرجه في "صحيحه " وكذا ابن حبان) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي وعبد الرحمن بن مقاتل خال القعنبي ومحمد بن عيسى- المعنى واحد- قالوا: ثنا عبد الرحمن بن أبي الموالي: حدثني محمد بن المنكدر: أنه سمع جابر بن عبد الله.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات على شرط البخاري؛ وقد أخرجه كما يأتي. وفي ابن أبي الموالي كلام يسير، لا يصره إن شاء الله تعالى؛ ولذلك قال الحافظ في " التقريب ":صدوق ربما أخطأ ". والحديث أخرجه البخاري (3/37 و 11/531 و 13/" 32) ، والنسائي (2/76) ، وعنه ابن السني في "عمل اليوم والليلة " (589) ، والترمذي (480) ، وابن ماجه (1/417) ، وابن حبان (884) ، وأحمد (3/344) من طرق عن عبد الرحمن بن أبي الموالي... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من حديث عبد الرحمن بن أبي الموالي، وهو شيخ ثقة ". وللحديث شاهد من حديث أبي هريرة... مرفوعاً به نحوه.
وآخر من حديث أبي سعيد الخدري؛ بزيادة في آخره، أوردته من أجلها في سلسلة الأحاديث الضعيفة" (2305)