تشریح:
۱؎: کیونکہ ہمیں سورہ مائدہ میں نبی اکرم ﷺ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کاعلم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔
۲؎: اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔
۳؎: اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے، مسلم کی روایت میں ((وَالَّذِى بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ وَلاَ أَنْقُصُ)) کے الفاظ آئے ہیں۔
۴؎: یعنی ’’سماع من لفظ الشیخ‘‘ کی طرح ’’القراء ۃ علی الشیخ‘‘ (استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا) بھی جائز ہے، مؤلف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ ’’قراء ۃ علی الشیخ‘‘ جائز نہیں، صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ ’’سماع من لفظ الشیخ‘‘ (استاذکی زبان سے سننے) کا ہے، اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت ’’سمعت، سمعنا، حدثنا، حدثني، أخبرنا، أخبرني، أنبأنا، أنبأني‘‘ کے صیغے استعمال کرتا ہے، اس کے بر خلاف ’’القراء ۃ علی الشیخ‘‘ (استاذ پر پڑھنے) کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد ’’قرأت على فلان‘‘ يا ’’قري على فلان وأنا أسمع‘‘، يا ’’حدثنا فلان قرائة عليه‘‘ کہہ کر روایت کرتا ہے۔