تشریح:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ جس جگہ سے وصول کی جائے وہیں کے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں زکاۃ تقسیم کی جائے، مقامی فقراء سے اگر زکاۃ بچ جائے تب وہ دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے، بظاہر اس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے، لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے ’’أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث كانوا‘‘ اور اس کے تحت یہی حدیث ذکر کی ہے اور ((فُقَرَائِهِمْ)) میں ’’هم‘‘ کی ضمیر کو ’’مسلمین‘‘ کی طرف لوٹایا ہے یعنی مسلمانوں میں سے جو بھی محتاج ہو اسے زکاۃ دی جائے، خواہ وہ کہیں کا ہو۔
۲؎: صنابحی سے مراد صنابح بن اعسر احمصی ہیں جو صحابی رسول ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي) .
إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا وك!: ثنا زكريا بن إسحاق المَكَي عن يحيى بن عبد الله بن صَيْفِي عن أبي مَعْبَدٍ عن ابن عباس.
قلت: إسناده صحيح، رجاله كلهم ثقات على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه، وهو مخرج في "إرواء الغليل " (855) ، فلا داعي لإعادة التخريج.
والحديث في المسند أحمد" (1/233) : ثنا وكيع. 0. به.
وبه: أخرجه ابن أبي شيبة أيضا في "المصنف " (3/144) .
ورواه الدارمي (1/379 و 384) : حدثنا أبو عاصم عن زكريا... به.