تشریح:
۱؎: قلّہ کے معنی مٹکے کے ہیں، یہاں مراد قبیلہ ہجر کے مٹکے ہیں، کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور و معروف تھے، اس مٹکے میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی، لہذا دو قلّوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی جو موجودہ زمانہ کے پیمانے کے مطابق دو کوئنٹل ستائیس کلوگرام ہوتی ہے۔
۲؎: کچھ لوگوں نے ((لَمْ يَحْمِلْ الْخَبَثَ)) کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ نجاست اٹھانے سے عاجز ہوگا یعنی نجس ہو جائے گا، لیکن یہ ترجمہ دو اسباب کی وجہ سے صحیح نہیں، ایک یہ کہ ابو داود کی ایک صحیح روایت میں ((اِذَا بَلَغَ المَاءُ قُلَّتَيْنِ فإنَّہُ لاَینَجُسْ)) ہے، یعنی: اگر پانی اس مقدار سے کم ہو تو نجاست گرنے سے نا پاک ہو جائے گا، چاہے رنگ مزہ اور بو نہ بدلے، اور اگر اس مقدار سے زیادہ ہو تو نجاست گرنے سے نا پاک نہیں ہوگا، الاّ یہ کہ اس کا رنگ، مزہ، اور بو بدل جائے، لہذا یہ روایت اسی پر محمول ہوگی اور ((لَمْ يَحْمِلْ الْخَبَثَ)) کے معنی ((لَم ینَجُسْ)) کے ہوں گے، دوسری یہ کہ ((قُلَّتَيْنِ)) ’’دو قلے‘‘ سے نبی اکرم ﷺ نے پانی کی تحدید فرما دی ہے اور یہ معنی لینے کی صورت میں تحدید باطل ہو جائے گی کیونکہ قلتین سے کم اور قلتین دونوں ایک ہی حکم میں آجائیں گے۔