تشریح:
۱؎: ایسے موقع پر استغفار طلب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ’’کھانا کھانے کے بعد اس کے فضلے کے نکلنے تک کی ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے بے انتہا انعامات میں سے ہیں جن کا شکر ادا کرنے سے انسان قاصر ہے، اس لیے قضائے حاجت کے بعد انسان اس کو تاہی کا اعتراف کرے، اس موقع کی دوسری دعا ’’سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کر دیا اور مجھے عافیت دی‘‘ کے معنی سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔
۲؎: یہ حدیث حسن غریب ہے، یہ ایک مشکل اصطلاح ہے کیو نکہ حدیث حسن میں ایک سے زائد سند بھی ہو سکتی ہے جب کہ غریب سے مراد وہ روایت ہے جو صرف ایک سند سے آئی ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے رتبے کے لحاظ سے حسن ہے اور کسی خارجی تقویت و تائید کی محتاج نہیں، اس بات کو امام ترمذی نے غریب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے یعنی اسے حسن لذاتہ بھی کہہ سکتے ہیں، واضح رہے کہ امام ترمذی حسن غریب کے ساتھ کبھی کبھی دو طرح کے جملے استعمال کرتے ہیں، ایک ’’لَانَعْرِفُهُ إِلَّامِن هٰذَا الوَجْهِ‘‘ ہے، اور دوسرا ’’وَإِسْنَادُه لَيْسَ بِمُتَّصِلْ‘‘ پہلے جملہ سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک طریق سے وارد ہوئی ہے اور دوسرے سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، یہاں حسن سے مراد وہ حسن ہے جس میں راوی متہم بالکذب نہ ہو، اور غریب سے مراد یہاں اس کا ضعف ظاہر کرنا ہے اور ’’إِسْنَادُه لَيْسَ بِمُتَّصِلْ‘‘ کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سند میں انقطاع ہے یعنی اس کا ضعف خفیف ہے۔
۳؎: یعنی اس باب میں اگرچہ اور بھی احادیث آئی ہیں لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث کے سوا کوئی حدیث قوی سند سے ثابت نہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذ ا قال النووي والعسقلاني والعراقي) . إسناده: ثنا أحمد بن يونسر: ثنا زهير عن داود بن عبد الله عن حميد الحميري. وهذا سند صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير داود بن عبد الله الأودي؛ وهو ثقة باتفاق النقاد. وللحديث تتمة تأتي برقم (74)والحديث أخرجه النسائي أيضا (1/47 و 2/276) ، والحاكم (1/ 168) ، والبيهقي (1/190) من طرق عن داود بن عبد الله الأودي عنه. وقال البيهقي:" رواته ثقات؛ إلا أن حميداً لم يسم الصحابي الذي حدثه؛ فهو بمعنى المرسل "!وتعقبه ابن التركماني فأصاب، حيث قال:" قد قدمنا أن هذا ليس بمرسل، بل هو متصل؛ لأنّ الصحابة كلهم عدول،
فلا تضرهم الجهالة ".ولذلك قال النووي في "المجموع " (2/91) ، والعراقي في "التقريب " (2/40) ، والحافظ في "بلوغ المرام " (1/22 من شرحه) : " وإسناده صحيح ". وقال في "الفتح " (1/240) : " رجاله ثقات، ولم أقف لمن أعله على حجة قوية، ودعوى البيهقي أنه في معنى المرسل مردودة؛ لأنّ إبهام الصحابي لا يضر، وقد صرح التابعي بأنه لقيه.
ودعوى ابن حزم أن داود- راويه عن حميد بن عبد الرحمن- هو ابن يزيد الأودي، وهو ضعيف: مردودة؛ فإنه ابن عبد الله الأودي، وهو ثقة، وقد صرح باسم أبيه أبو
داود وغيره ". والحديث سكت عليه المنذري (رقم 26) .
وله شاهد بسند حسن عن عبد الله بن يزيد، خرّجته في "الصحيحة" (2516) في التبوُل.