تشریح:
۱؎: لیکن جمہور نے اسے تخییر پر محمول کیا ہے کیونکہ ام ہانی کی ایک روایت میں ہے ((وَإِنْ كَانَ تَطَوُّعاً فَإِنْ شِئْتِ فَأقْضِي وَإِنْ شِئْتِ فَلَا تَقْضِي)) ’’اور اگر نفلی روزہ ہے تو چاہو تو تم اس کی قضا کرو اور چاہو تو نہ کرو‘‘ اس روایت کی تخریج احمد نے کی ہے اور ابوداؤد نے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔
نوٹ: (جعفر بن برقان زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عروہ کا واسطہ غلط ہے سند میں عروہ ہیں ہی نہیں)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ زُميْلٌ مجهول: وكذا قال الخطابي والمنذري والعسقلاني. وقال البخاري: " لا تقوم به الحجة "
إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا عبد الله بن وهب: أخبرني حيْوةُ بن شُريْح عن ابن الهاد عن زُميْلٍ.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ غير زُميْلٍ- مصغراً- فإنه مجهول؛ لا يعرف إلا في هذا الحديث، قد صرح بجهالته من ذكرنا آنفاً وغيرهم. وروي عن الزهري عن عروة... به. وعن عمْرة عن عائشة، وهو وهم، والصواب عن الزهري مرسلاً، ومن وصله عنه فقد وهم وهماً فاحشاً، وقد فصّلْتُ القول في ذلك، وخرجت الطرق، وبينت
عللها في "الضعيفة" (5202) .