قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي تَقْبِيلِ الْحَجَرِ​)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

888 .   حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ فَقَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ فَقَالَ الرَّجُلُ أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ عَلَيْهِ أَرَأَيْتَ إِنْ زُوحِمْتُ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ قَالَ وَهَذَا هُوَ الزُّبَيْرُ بْنُ عَرَبِيٍّ رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَالزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ كُوفِيٌّ يُكْنَى أَبَا سَلَمَةَ سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ تَقْبِيلَ الْحَجَرِ فَإِنْ لَمْ يُمْكِنْهُ وَلَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَلَمَهُ بِيَدِهِ وَقَبَّلَ يَدَهُ وَإِنْ لَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَقْبَلَهُ إِذَا حَاذَى بِهِ وَكَبَّرَ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

جامع ترمذی:

كتاب: حج کے احکام ومسائل 

  (

باب: حجر اسود کو بوسہ دینے کا بیان​

)
 

مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)

888.   زبیر بن عربی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر ؓ سے حجر اسود کا بوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا: اچھا بتائیے اگر میں وہاں تک پہنچنے میں مغلوب ہو جاؤں اور اگر میں بھیڑ میں پھنس جاؤں؟ تو اس پر ابن عمر نے کہا: تم (یہ اپنا) اگر مگر یمن میں رکھو۱؎ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ یہ زبیر بن عربی وہی ہیں، جن سے حماد بن زید نے روایت کی ہے، کوفے کے رہنے والے تھے، ان کی کنیت ابو سلمہ ہے۔ انہوں نے انس بن مالک اور دوسرے کئی صحابہ سے حدیثیں روایت کیں ہیں۔ اور ان سے سفیان ثوری اور دوسرے کئی اور ائمہ نے روایت کی ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر‬ ؓ ک‬ی حدیث حسن صحیح ہے۔ ان سے یہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ حجر اسود کے بوسہ لینے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور آدمی وہاں تک نہ پہنچ سکے تو اسے اپنے ہاتھ سے چھو لے اور اپنے ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگر وہ اس تک نہ پہنچ سکے تو جب اس کے سامنے میں پہنچے تو اس کی طرف رخ کرے اور اللہ اکبر کہے، یہ شافعی کا قول ہے۔