قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ​)

حکم : صحیح 

888.  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِهِ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: قَالَ يَحْيَى. وَالصَّوَابُ حَدِيثُ سُفْيَانَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي أَيُّوبَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنُ عُمَرَ، فِي رِوَايَةِ سُفْيَانَ، أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ. وَحَدِيثُ سُفْيَانَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لأَنَّهُ لاَتُصَلَّى صَلاَةُ الْمَغْرِبِ دُونَ جَمْعٍ. فَإِذَا أَتَى جَمْعًا، وَهُوَ الْمُزْدَلِفَةُ، جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ، وَلَمْ يَتَطَوَّعْ فِيمَا بَيْنَهُمَا، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَذَهَبَ إِلَيْهِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ. قَالَ سُفْيَانُ: وَإِنْ شَاءِ صَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ تَعَشَّى وَوَضَعَ ثِيَابَهُ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءِ. فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَيْنِ. يُؤَذِّنُ لِصَلاَةِ الْمَغْرِبِ وَيُقِيمُ، وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ. ثُمَّ يُقِيمُ وَيُصَلِّي الْعِشَاءِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى إِسْرَائِيلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِاللهِ وَخَالِدٍ، ابْنَيْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَحَدِيثُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا. رَوَاهُ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ. وَأَمَّا أَبُوإِسْحَاقَ فَرَوَاهُ عَنْ عَبْدِاللهِ وَخَالِدٍ، ابْنَيْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ

مترجم:

888.

اس سند سے بھی ابن عمر‬ ؓ ن‬بی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل راویت کرتے ہیں۔ محمد بن بشار نے (حدثنا کے بجائے) قال یحیی کہا ہے۔ اور صحیح سفیان والی روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر ؓ کی حدیث جسے سفیان نے روایت کی ہے اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، اور سفیان کی حدیث صحیح حسن ہے۔
۲- اسرائیل نے یہ حدیث ابو اسحاق سبیعی سے روایت کی ہے اور ابو اسحاق سبیعی نے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور خالد سے اور عبداللہ اور خالد نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سعید بن جبیر کی حدیث جسے انہوں نے ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، سلمہ بن کہیل نے اسے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے، رہے ابو اسحاق سبیعی تو انہوں نے اسے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور خالد سے اور ان دونوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔
۳- اس باب میں علی، ابو ایوب، عبداللہ بن سعید، جابر اور اسامہ بن زید ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس لیے کہ مغرب مزدلفہ آنے سے پہلے نہیں پڑھی جائے گی، جب حجاج جمع۱؎ یعنی مزدلفہ جائیں تو دونوں نمازیں ایک اقامت سے اکٹھی پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھیں گے۔ یہی مسلک ہے جسے بعض اہل علم نے اختیار کیا ہے اور اس کی طرف گئے ہیں اور یہی سفیان ثوری کا بھی قول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ چاہے تو مغرب پڑھے پھر شام کا کھانا کھائے، اور اپنے کپڑے اتارے پھر تکبیر کہے اور عشاء پڑھے۔
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مغرب اور عشاء کو مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کرے۔ مغرب کے لیے اذان کہے اور تکبیر کہے اور مغرب پڑھے، پھر تکبیر کہے اور عشاء پڑھے یہ شافعی کا قول ہے۔