قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي اللُّقَطَةِ وَضَالَّةِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ​)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

1373 .   حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ اللُّقَطَةِ فَقَالَ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا وَإِلَّا فَاعْرِفْ وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَدَدَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَالْجَارُودِ بْنِ الْمُعَلَّى وَعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ هَذَا الْحَدِيثُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ وَرَخَّصُوا فِي اللُّقَطَةِ إِذَا عَرَّفَهَا سَنَةً فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يُعَرِّفُهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا تَصَدَّقَ بِهَا وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ لَمْ يَرَوْا لِصَاحِبِ اللُّقَطَةِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا إِذَا كَانَ غَنِيًّا و قَالَ الشَّافِعِيُّ يَنْتَفِعُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا لِأَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَصَابَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعَرِّفَهَا ثُمَّ يَنْتَفِعَ بِهَا وَكَانَ أُبَيٌّ كَثِيرَ الْمَالِ مِنْ مَيَاسِيرِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعَرِّفَهَا فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْكُلَهَا فَلَوْ كَانَتْ اللُّقَطَةُ لَمْ تَحِلَّ إِلَّا لِمَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ لَمْ تَحِلَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ لِأَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصَابَ دِينَارًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَّفَهُ فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهُ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَكْلِهِ وَكَانَ لَا يَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَتْ اللُّقَطَةُ يَسِيرَةً أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا وَلَا يُعَرِّفَهَا و قَالَ بَعْضُهُمْ إِذَا كَانَ دُونَ دِينَارٍ يُعَرِّفُهَا قَدْرَ جُمْعَةٍ وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ

جامع ترمذی:

كتاب: حکومت وقضاء کے بیان میں 

  (

باب: گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کے بیان​ میں

)
  تمہید باب

مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)

1373.   زید بن خالد جہنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہ (گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’سال بھراس کی پہچان کراؤ ۱؎، اگرکوئی پہچان بتا دے تواسے دے دو، ورنہ اس کے ڈاٹ اورسربند کو پہچان لو، پھر اُسے کھا جاؤ۔ پھرجب اس کا مالک آئے تو اُسے ادا کردو‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے۔۲۔ احمدبن حنبل کہتے ہیں: اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے۔۳۔ یہ ان سے اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے۔۴۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ یہ لوگ لقطہ سے فائدہ اٹھانے کوجائز سمجھتے ہیں، جب ایک سال تک اس کا اعلان ہوجائے اور کوئی پہچاننے والا نہ ملے۔ شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔۵۔ اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کردے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔ اوریہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔۶۔ لقطہ اٹھانے والا جب مالدار ہوتو یہ لوگ لقطہ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔۷۔ شافعی کہتے ہیں: وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مال دار ہو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں، اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اوربہت مالدارتھے، پھربھی نبی اکرمﷺنے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپﷺنے انہیں کھا جانے کا حکم دیا۔ (دوسری بات یہ کہ) اگر لقطہ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے توعلی کے لیے جائز نہ ہوتا، اس لیے کہ علی کو نبی اکرمﷺکے زمانہ میں ایک دینار ملا، انہوں نے (سال بھرتک) اُس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جواسے پہچانتا تو نبی اکرمﷺنے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالاں کہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا۔۸۔ بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہ معمولی ہو تو لقطہ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اوراس کا پہچان کروانا ضروری نہیں۔۲؎۔۹۔ بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ ایک دینارسے کم ہوتووہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔ یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے۔۱۰۔ اس باب میں ابی بن کعب، عبداللہ بن عمرو، جارود بن معلی، عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔