موضوعات
![]() |
شجرۂ موضوعات |
![]() |
ایمان (21675) |
![]() |
اقوام سابقہ (2925) |
![]() |
سیرت (18010) |
![]() |
قرآن (6272) |
![]() |
اخلاق و آداب (9763) |
![]() |
عبادات (51486) |
![]() |
کھانے پینے کے آداب و احکام (4155) |
![]() |
لباس اور زینت کے مسائل (3633) |
![]() |
نجی اور شخصی احوال ومعاملات (6547) |
![]() |
معاملات (9225) |
![]() |
عدالتی احکام و فیصلے (3431) |
![]() |
جرائم و عقوبات (5046) |
![]() |
جہاد (5356) |
![]() |
علم (9419) |
![]() |
نیک لوگوں سے اللہ کے لیے محبت کرنا |
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي الإِسْتِنْجَاءِ بِالْمَاءِ)
حکم : صحیح
19 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ الْبَصْرِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مُرْنَ أَزْوَاجَكُنَّ أَنْ يَسْتَطِيبُوا بِالْمَاءِ، فَإِنِّي أَسْتَحْيِيهِمْ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَفْعَلُهُ. وَفِي الْبَاب عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَخْتَارُونَ الإسْتِنْجَاءَ بِالْمَاءِ، وَإِنْ كَانَ الإسْتِنْجَاءُ بِالْحِجَارَةِ يُجْزِءُ عِنْدَهُمْ، فَإِنَّهُمْ اسْتَحَبُّوا الإسْتِنْجَاءَ بِالْمَاءِ، وَرَأَوْهُ أَفْضَلَ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ
جامع ترمذی:
كتاب: طہارت کے احکام ومسائل
باب: پانی سے استنجاکرنے کا بیان
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
19. ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ تم عورتیں اپنے شوہروں سے کہو کہ وہ پانی سے استنجاء کیا کریں، میں ان سے (یہ بات کہتے ) شرما رہی ہوں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲- اس باب میں جریر بن عبداللہ بجلی، انس، اور ابوہریرہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔۳- اسی پر اہل علم کاعمل ہے۱؎، وہ پانی سے استنجاء کرنے کو پسند کرتے ہیں اگرچہ پتھر سے استنجاء ان کے نزدیک کافی ہے پھر بھی پانی سے استنجاء کو انہوں نے مستحب اور افضل قرار دیا ہے۔ سفیان ثوری، ابن المبارک، شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔