تشریح:
۱؎: یعنی ’’اللہُ أکْبَرْ‘‘ ہی کہہ کر نماز میں داخل ہونے سے وہ سارے کام حرام ہوتے ہیں جنہیں اللہ نے نماز میں حرام کیا ہے، ’’اللہُ أکْبَرْ‘‘ کہہ کر نماز میں داخل ہونا نبی اکرم ﷺ کا دائمی عمل تھا، اس لیے کسی دوسرے عربی لفظ یا عجمی لفظ سے نماز کی ابتداء صحیح نہیں ہے۔
۲؎: یعنی صرف ’’السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَةُ اللہِ‘‘ ہی کے ذریعہ نماز سے نکلا جاسکتا ہے۔ دوسرے کسی اور لفظ یا عمل کے ذریعہ نہیں۔
۳؎: یہ کلمات تعدیل میں سے ہے اور جمہور کے نزدیک یہ کلمہ راوی کے تعدیل کے چوتھے مرتبے پر دلالت کرتا ہے جس میں راوی کی عدالت تو واضح ہوتی ہے لیکن ضبط واضح نہیں ہوتا، امام بخاری رحمہ اللہ جب کسی کو صدوق کہتے ہیں تو اس سے مراد ثقہ ہوتا ہے جو تعدیل کا تیسرا مرتبہ ہے۔
۴؎: مقارب الحدیث حفظ و تعدیل کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے، لفظ مقارب دو طرح پڑھا جاتا ہے: راء پر زبر کے ساتھ، اور راء کے زیر کے ساتھ، زبر کے ساتھ مقارَب الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی حدیث اس کی حدیث سے قریب ہے، اور زیر کے ساتھ مقارِب الحدیث سے یہ مراد ہے کہ اس کی حدیث دیگر ثقہ راویوں کی حدیث سے قریب تر ہے، یعنی اس میں کوئی شاذ یا منکر روایت نہیں ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ صیغہ ولید بن رباح اور عبد اللہ بن محمد بن عقیل کے بارے میں استعمال کیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وصححه الحاكم وابن السكن وكذا الحافظ، وحسّنه النووي، وأورده المقد سي في "الأ حاديث المختارة ")
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا وكيع عن سفيان عن ابن عَقيل عن محمد ابن الحنفية عن علي. وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير ابن عقيل- وهو عبد الله بن محمد بن عقيل-؛ وقد تكلم فيه من قِبل حفظه، وهو صدوق. وقد قال الذهبي: "حديثه في مرتبة الحسن، كان أحمد وإسحاق يحتجان به ". وقال الحافظ
في " التقريب ": " صدوق في حديثه لين، ويقال: تغير بأخرة
والحديث أعاده المصنف رحمه الله في "باب الإمام يحدث بعدما يرفع رأسه من الصلاة "، وسوف لا نعيده في "مختصرنا" هذا؛ لأنه بهذا السند. والحديث أخرجه الترمذي أيضا؛ والدارمي وابن ماجه والطحاوي والدارقطني، والبيهقي (2/173 و 379) ، وأحمد (2/رقم 1006- 1072) ، والخطيب في "تاريخه " (10/197) من طرق عن سفيان... به. ورواه ابن أبي شيبة وإسحاق بن راهويه والبزار في "مسانيدهم "- كما في "نصب الراية" (1/307) -. ثمّ قال الترمذي: " هذا الحديث أصح شيء في هذا الباب وأحسن، وعبد الله بن محمد بن عقيل صدوق، وقد تكلم فيه بعض أهل العلم من قِبل حفظه، وسمعت محمد
ابن إسماعيل يقول: كان أحمد بن حنبل وإسحاق بن إبراهيم والحميدي يحتجون بحديث عبد الله بن محمد بن عقيل. قال محمد: وهو مقارب الحديث ". وقال النووي في "المجموع " (3/289) : " رواه أبو داود والترمذي وغيرهما بإسناد صحيح؛ إلا أن فيه عبد الله بن محمدابن عقيل، قال الترمذي... " 0
قلت: فذكر ما نقلناه عنه آنفاً. ونقل الزيلعي عنه أنه قال في "الخلاصة": " هو حديث حسن ". وقال الحافظ:
" وصححه الحاكم وابن السكن ". وقال في "الفتح " (2/257) : " أخرجه أصحاب "السنن " بسند صحيح "!
كذا قال! ولكن الحديث له شواهد يرقى بها إلى درجة الصحيح، وقد أوردتها في كتابنا الكبير في "صفة صلاة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من التكبير إلى التسليم "؛ ويراجع له " نصب الراية " وغيرها. وأما تصحيح الحاكم له؛ فلم أقف عليه! وهو إنما أورد الحديث في "المستدرك "
(1/132) تعليقاً بدون تصحيح؛ فلعله صححه في بعض كتبه الأخرى. وأخرجه الضياء في "المختارة" (1/243) .
الارواہ الغلیل:301 مشکوٰۃ مصابیح( 312)