Tarimdhi:
Chapters on Virtues
(Chapter: “Stick To The Two After Me, Abu Bakr and 'Umar”)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
3672.
ام المومنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں‘‘، اس پر عائشہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! ابوبکر جب آپﷺ کی جگہ (نماز پڑھانے) کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو قرأت نہیں سنا سکیں گے۱؎، اس لیے آپﷺ عمر کو حکم دیجئے کہ وہ نماز پڑھائیں، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں‘‘۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں: تو میں نے حفصہ سے کہا: تم ان سے کہو کہ ابوبکر جب آپﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو رونے کے سبب قرأت نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپﷺ عمر کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو حفصہ نے (ایسا ہی) کیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم وہی تو ہو جنہوں نے یوسف ؑ کو تنگ کیا‘‘۲؎، ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں‘‘، تو حفصہ نے عائشہ سے (بطور شکایت) کہا کہ مجھے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں پہنچی۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود ، ابوموسیٰ اشعری ، ابن عباس، سالم بن عبید اور عبداللہ بن زمعہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: کیوں کہ ابوبکر پر رقت طاری ہو جائے گی ا ورہ رونے لگیں گے پھر رونے کی وجہ سے اپنی قرأت لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے،اور بعض روایات کے مطابق اس کا سبب عائشہ نے یہ بیان کیا،اور بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ آپﷺ کی موجود گی میں آپﷺ کی جگہ پر کھڑے ہو نے پر ابوبکر اپنے غم ضبط نہیں کر پائیں گے اس طرح لوگوں کو نماز نہیں پڑھا پائیں گے، واللہ اعلم۔ ۲؎: صواحبات یوسف سے تشبیہ دینے کی وضاحت یہ ہے کہ جس طرح زلیخا کی عورتوں کی ضیافت حقیقت میں مقصود نہیں تھی ، بلکہ مقصود یہ بات تھی کہ وہ عورتیں یوسف کا حسن مشاہدہ کرنے کے بعد مجھ پر لعن طعن نہیں کریں گی، اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کا حقیقی مقصد کچھ اور تھا، اور ظاہرمیں کچھ اور کر رہی تھی حقیقی مقصدیہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت کے بعد اگر نبی اکرمﷺ کی وفات ہو جاتی ہے ، تو لوگ ان کو منحوس سمجھیں گے۔ ۳؎: حفصہ رضی اللہ عنہا کا اشارہ اس طرف تھا کہ ایک بار عائشہ رضی اللہ عنہا کے چکر میں آ کر بے قوف بن چکی تھیں، یعنی شہد پینے کے معاملہ میں، تو اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ اس سفارش پر پھٹکار سننی پڑ ی۔
ام المومنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں‘‘، اس پر عائشہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! ابوبکر جب آپﷺ کی جگہ (نماز پڑھانے) کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو قرأت نہیں سنا سکیں گے۱؎، اس لیے آپﷺ عمر کو حکم دیجئے کہ وہ نماز پڑھائیں، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں‘‘۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں: تو میں نے حفصہ سے کہا: تم ان سے کہو کہ ابوبکر جب آپﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو رونے کے سبب قرأت نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپﷺ عمر کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو حفصہ نے (ایسا ہی) کیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم وہی تو ہو جنہوں نے یوسف ؑ کو تنگ کیا‘‘۲؎، ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں‘‘، تو حفصہ نے عائشہ سے (بطور شکایت) کہا کہ مجھے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں پہنچی۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود ، ابوموسیٰ اشعری ، ابن عباس، سالم بن عبید اور عبداللہ بن زمعہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: کیوں کہ ابوبکر پر رقت طاری ہو جائے گی ا ورہ رونے لگیں گے پھر رونے کی وجہ سے اپنی قرأت لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے،اور بعض روایات کے مطابق اس کا سبب عائشہ نے یہ بیان کیا،اور بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ آپﷺ کی موجود گی میں آپﷺ کی جگہ پر کھڑے ہو نے پر ابوبکر اپنے غم ضبط نہیں کر پائیں گے اس طرح لوگوں کو نماز نہیں پڑھا پائیں گے، واللہ اعلم۔ ۲؎: صواحبات یوسف سے تشبیہ دینے کی وضاحت یہ ہے کہ جس طرح زلیخا کی عورتوں کی ضیافت حقیقت میں مقصود نہیں تھی ، بلکہ مقصود یہ بات تھی کہ وہ عورتیں یوسف کا حسن مشاہدہ کرنے کے بعد مجھ پر لعن طعن نہیں کریں گی، اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کا حقیقی مقصد کچھ اور تھا، اور ظاہرمیں کچھ اور کر رہی تھی حقیقی مقصدیہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت کے بعد اگر نبی اکرمﷺ کی وفات ہو جاتی ہے ، تو لوگ ان کو منحوس سمجھیں گے۔ ۳؎: حفصہ رضی اللہ عنہا کا اشارہ اس طرف تھا کہ ایک بار عائشہ رضی اللہ عنہا کے چکر میں آ کر بے قوف بن چکی تھیں، یعنی شہد پینے کے معاملہ میں، تو اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ اس سفارش پر پھٹکار سننی پڑ ی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidah Ayshah narrated, that the Prophet (ﷺ) commanded that Abu Bakr (RA) should lead the people in salah.” She pleaded, ‘O Messenger of Allah, if Abu Bakr (RA) stands in your place, people will not hear him because of his weeping. So, do instruct Umar that he may lead people in Salah.” But, he repeated, “Ask Abu Bakr (RA) that he may lead them in salah.’ She said to Hafsah (RA), “Do tell him that when Abu Bakr (RA) will stand in his place, people will be unable to hear him because of his weeping, so command Umar to lead them in salah.” So Sayyidah Hafsah said that to him and he said, “You are the women of Yusuf (who sent him to prison). Ask Abu Bakr (RA) to lead men in salah.” So, Sayyidah Hafsah (RA) said to Sayyidah Ayshah “I have never had good from you.” [Bukhari 664, Muslim 418, Ibn e Majah 1232, Ahmed 25819]