Tarimdhi:
Chapters on Virtues
(Chapter: Regarding The Virtues Of Abu Hafs 'Umar bin Al-Khattab, May Allah Be Pleased With Him )
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
3689.
بریدہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک دن) صبح کی تو بلا ل ؓ کو بلایا اور پوچھا: بلال! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں میرے آگے آگے رہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں اور اپنے آگے تمہاری کھڑاؤں کی آواز نہ سنی ہو، آج رات میں جنت میں د اخل ہوا تو (آج بھی) میں نے اپنے آگے تمہارے کھڑاؤں کی آواز سنی، پھر سونے کے ایک چوکور بلند محل پر سے گزرا تو میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بیان کیا کہ یہ ایک عرب آدمی کا ہے، تو میں نے کہا: میں (بھی) عرب ہوں، بتاؤ یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ قریش کے ایک شخص کا ہے۔ میں نے کہا: میں (بھی) قریشی ہوں، بتاؤ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ محمد ﷺ کی امت کے ایک فرد کا ہے، میں نے کہا: میں محمد ہوں، یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب کا ہے‘‘، بلال ؓ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے اذان دی ہو اور دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے حدث لاحق ہوا ہو اور میں نے اسی وقت وضو نہ کر لیا ہو اور یہ نہ سمجھا ہو کہ اللہ کے لیے میرے اوپر دو رکعتیں (واجب) ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’انہیں دونوں رکعتوں (یا خصلتوں) کی سے (یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے۱؎)‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔۲۔ اس باب میں جابر، معاذ، انس اور ابوہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا تو میں نے کہا: یہ کس کا ہے؟ کہا گیا: یہ عمر بن خطاب کا ہے۔۳۔ حدیث کے الفاظ (أَنِّي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ) کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا ہوں، بعض روایتوں میں ایسا ہی ہے۔۴۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: انبیاء ؑ کے خواب وحی ہیں۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: وضو کے بعد دو رکعت نفل کی پابندی سے ادائیگی کی برکت سے بلال کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، یا ایک خصلت وضوء ٹوٹتے وضوء کر لینا یعنی ہمیشہ باوضو رہنا، دوسری خصلت: ہر وضوء کے بعد دو رکعت بطورتحیۃ الوضوء کے پڑھنا، ان دونوں خصلتوں کی برکت سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ ہمیشہ باوضوء رہنا بڑے اجروثواب کا کام ہے، وہیں اس سے بلال کی فضیلت اور دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری کا پتا چلا اور عمر رضی اللہ عنہ کے لیے سونے کے محل سے ان کی فضیلت ثابت ہوئی۔
بریدہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک دن) صبح کی تو بلا ل ؓ کو بلایا اور پوچھا: بلال! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں میرے آگے آگے رہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں اور اپنے آگے تمہاری کھڑاؤں کی آواز نہ سنی ہو، آج رات میں جنت میں د اخل ہوا تو (آج بھی) میں نے اپنے آگے تمہارے کھڑاؤں کی آواز سنی، پھر سونے کے ایک چوکور بلند محل پر سے گزرا تو میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بیان کیا کہ یہ ایک عرب آدمی کا ہے، تو میں نے کہا: میں (بھی) عرب ہوں، بتاؤ یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ قریش کے ایک شخص کا ہے۔ میں نے کہا: میں (بھی) قریشی ہوں، بتاؤ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ محمد ﷺ کی امت کے ایک فرد کا ہے، میں نے کہا: میں محمد ہوں، یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب کا ہے‘‘، بلال ؓ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے اذان دی ہو اور دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے حدث لاحق ہوا ہو اور میں نے اسی وقت وضو نہ کر لیا ہو اور یہ نہ سمجھا ہو کہ اللہ کے لیے میرے اوپر دو رکعتیں (واجب) ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’انہیں دونوں رکعتوں (یا خصلتوں) کی سے (یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے۱؎)‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ۲۔ اس باب میں جابر، معاذ، انس اور ابوہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا تو میں نے کہا: یہ کس کا ہے؟ کہا گیا: یہ عمر بن خطاب کا ہے۔ ۳۔ حدیث کے الفاظ (أَنِّي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ) کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا ہوں، بعض روایتوں میں ایسا ہی ہے۔ ۴۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: انبیاء ؑ کے خواب وحی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: وضو کے بعد دو رکعت نفل کی پابندی سے ادائیگی کی برکت سے بلال کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، یا ایک خصلت وضوء ٹوٹتے وضوء کر لینا یعنی ہمیشہ باوضو رہنا، دوسری خصلت: ہر وضوء کے بعد دو رکعت بطورتحیۃ الوضوء کے پڑھنا، ان دونوں خصلتوں کی برکت سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ ہمیشہ باوضوء رہنا بڑے اجروثواب کا کام ہے، وہیں اس سے بلال کی فضیلت اور دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری کا پتا چلا اور عمر رضی اللہ عنہ کے لیے سونے کے محل سے ان کی فضیلت ثابت ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Abu Buraydah (RA) narrated: One morning, Allah’s Messenger called Bilal (RA) and said, “O Bilal (RA) , with what did you overtake me to Paradise? Indeed, I did not enter paradise but heard the rusutle of your footsteps ahead of me. I entered paradise last night and heard your steps ahead of me till I came to a castle square and lofty made of gold. I asked, “To whom does this castle belong?” They said, ‘A man of the Arabs,’ and I said, “I am an Arab. for whom is this castle?’ They said, ‘For a man of the Quraysh,’ so I said, ‘I am a Quraysh, for whom is it?” They said, ‘For a man of Muhammad’s Ummah.’ I said, ‘lam Muhammad’s and for whom is the castle?’ They said, ‘For Umar ibn al-Khattab.” Bilal (RA) said, “O Messenger of Allah! (ﷺ) I never call the adhan but offer two raka’at prayer (before that) and whenever I relieve myself or break wind, I make a fresh ablution. I am convinced that to offer two raka’at is Allah’s right on me.” Allah’s Messenger said, “Because of both these things (you preceded me to paradise).” [Ahmed 23102] --------------------------------------------------------------------------------