باب: عثمان بن عفانؓ کے مناقب کابیان اور ان کی دو کنیتیں ہیں ابو عمرو اور ابو عبداللہ
)
Tarimdhi:
Chapters on Virtues
(Chapter: About The Virtues Of 'Uthman bin 'Affan, And That He Has Two Kunyah; He Is Called Abu 'Amr and Abu 'Abdullah)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
3703.
ثمامہ بن حزن قشیری کہتے ہیں کہ میں اس وقت گھر میں موجود تھا جب عثمان ؓ نے کوٹھے سے جھانک کر انہیں دیکھا اور کہا تھا: تم میرے سامنے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لاؤ، جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا وہ دونوں دو اونٹ تھے یا دو گدھے یعنی بڑے موٹے اور طاقتور، تو عثمان ؓ نے انہیں جھانک کر دیکھا اور کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بئر رومہ کے علاوہ کوئی اور میٹھا پانی نہیں تھا جسے لوگ پیتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کون بئررومہ کو جنت میں اپنے لیے اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اپنے ڈول کو دوسرے مسلمانوں کے ڈول کے برابر کر دے گا؟‘‘، یعنی اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی پینے کا برابر کا حق دے گا، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس کے پینے سے روک رہے ہو، یہاں تک کہ میں سمندر کا (کھارا) پانی پی رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، یہی بات ہے، انہوں نے کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہو گئی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا؟‘‘، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دو رکعت نماز پڑھنے نہیں دے رہے ہو، لوگوں نے کہا: ہاں، بات یہی ہے، پھرانہوں نے کہا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپﷺ کے ساتھ ابوبکر، عمر ؓ تھے اور میں تھا، تو پہاڑ لرزنے لگا، یہاں تک کہ اس کے کچھ پتھر نیچے کھائی میں گرے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے پیر سے مار کر فرمایا: ’’ٹھہر اے ثبیر! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دوشہیدوں کے سوا کوئی اورنہیں‘‘، لوگوں نے کہا: ہاں بات یہی ہے۔ تو انہوں نے کہا: اللہ اکبر! قسم ہے رب کعبہ کی! ان لوگوں نے میرے شہید ہونے کی گواہی دے دی، یہ جملہ انہوں نے تین بار کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور عثمان سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ سے بھی آئی ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت : ورجاله ثقات رجال مسلم غير يحيى بن أبي الحجاج وهو أبو أيوب الأهتمي البصري وهو لين الحديث كما في " التقريب " لكنه لم يتفرد به فقد أخرجه عبد الله بن الامام أحمد في " زوائد المسند " ( 1 / 74 - 75 ) من طريق هلال بن حق عن الجريري به دون قصة ثبير . وهذه متابعة لا بأس بها فإن هلال بن حق بكسر المهملة روى عنه جماعة من الثقات ووثقه ابن حبان وفي " التقريب " : " مقبول " فالحديث حسن كما قال الترمذي وقد علقه البخاري ( 2 / 75 ) بصيغة الجزم والله أعلم .
ثمامہ بن حزن قشیری کہتے ہیں کہ میں اس وقت گھر میں موجود تھا جب عثمان ؓ نے کوٹھے سے جھانک کر انہیں دیکھا اور کہا تھا: تم میرے سامنے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لاؤ، جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا وہ دونوں دو اونٹ تھے یا دو گدھے یعنی بڑے موٹے اور طاقتور، تو عثمان ؓ نے انہیں جھانک کر دیکھا اور کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بئر رومہ کے علاوہ کوئی اور میٹھا پانی نہیں تھا جسے لوگ پیتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کون بئررومہ کو جنت میں اپنے لیے اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اپنے ڈول کو دوسرے مسلمانوں کے ڈول کے برابر کر دے گا؟‘‘، یعنی اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی پینے کا برابر کا حق دے گا، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس کے پینے سے روک رہے ہو، یہاں تک کہ میں سمندر کا (کھارا) پانی پی رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، یہی بات ہے، انہوں نے کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہو گئی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا؟‘‘، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دو رکعت نماز پڑھنے نہیں دے رہے ہو، لوگوں نے کہا: ہاں، بات یہی ہے، پھرانہوں نے کہا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپﷺ کے ساتھ ابوبکر، عمر ؓ تھے اور میں تھا، تو پہاڑ لرزنے لگا، یہاں تک کہ اس کے کچھ پتھر نیچے کھائی میں گرے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے پیر سے مار کر فرمایا: ’’ٹھہر اے ثبیر! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دوشہیدوں کے سوا کوئی اورنہیں‘‘، لوگوں نے کہا: ہاں بات یہی ہے۔ تو انہوں نے کہا: اللہ اکبر! قسم ہے رب کعبہ کی! ان لوگوں نے میرے شہید ہونے کی گواہی دے دی، یہ جملہ انہوں نے تین بار کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور عثمان سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ سے بھی آئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Thumamah ibn Hazn al-Qusjiayri narrated: I was present at the house when Uthman (RA) appeared before the people. He said, “Bring your two friends who have put you against me.” So, they were brought as if they were two camels or two donkeys. Uthman turned to them and said, “I adjure you by Allah and Islam, do you know that when Allah’s Messenger (ﷺ) came to Madinah and there was no fresh water except at Bi’r (well) Ruma and he said, ‘Who will buy the well Ruma and let Muslims put down it their backets for a better one than that for him in paradise?’ So, I bought it from my capital. But, today, you are preventing me that I may drink from it so that I have to drink salty water.” They affirmed, “O Allah, Yes!” Then he said, “I adjure you by Allah and Islam, do you recall that the Mosque had grown crowded for its worshippers? So Allah’s Messenger (ﷺ) said, ‘Who will buy the plot of such-and-such family and add it to the Mosque for a better one than that for him in paradise.” So, I bought it with my capital while you people deny me access to it today that I may pray two raka’at there.” They acknowledged, “O Allah, Yes!” He said, “I adjure you by Allah and Islam, do you recall that I equipped the ill equipped army (for Tabuk) with my capital?” They acknowledged, “O Allah, yes!” He said, “I adjure you by Allah and Islam, do you recall that Allah’s Messenger (ﷺ) was on the top of the muantain Thabir at Makkah and with him were Abu Bakr, Umar and myself? The mountain shook till its stones fell down with rapidity, He kicked it with his foot and said, ‘Stop, Thabir! On you is a Prophet, a Saddiq, two Shahids.” They affirmed, “O Allah, yes.’ He said “Allah Akbar (Allah is the Greatest)! They have testified for me, by the Lord of the Ka’bah, I am a Shahid (martyr)!” (He said that) three times. [Nisai 3686]