باب: عثمان بن عفانؓ کے مناقب کابیان اور ان کی دو کنیتیں ہیں ابو عمرو اور ابو عبداللہ
)
Tarimdhi:
Chapters on Virtues
(Chapter: About The Virtues Of 'Uthman bin 'Affan, And That He Has Two Kunyah; He Is Called Abu 'Amr and Abu 'Abdullah)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
3706.
عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ ٔ قریش کے لوگ ہیں، اس نے کہا: یہ کون شیخ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر ؓ ہیں تووہ ان کے پاس آیا اور بولا: میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہا ہوں آپ مجھے بتائیے، میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان ؓ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہیں تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر میں موجود نہیں تھے، انہوں نے کہا: ہاں، اس مصری نے ازراہ تعجب اللہ اکبر کہا۱؎، اس پر ابن عمر نے اس سے کہا: آؤ میں تیرے سوالوں کو تم پر واضح کر دوں: رہا ان (عثمان) کا احد کے دن بھاگنا ۲؎ تو تو گواہ رہ کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا اور بخش دیا ہے۳؎ اور رہی بدر کے دن ، ان کی غیر حاضری تو ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ’’تمہیں اس آدمی کے برابر ثواب اور اس کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا، جو بدر میں حاضر ہوگا‘‘،اور رہی ان کی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عثمان سے بڑھ کر وادی مکہ میں کوئی باعزت ہوتا تو عثمان ؓ کی جگہ رسول اللہ ﷺ اسی کو بھیجتے، رسول اللہ ﷺ نے عثمان کو مکہ بھیجا اور بیعت رضوان عثمان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے‘‘، اور اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: ’’یہ عثمان کی طرف سے بیعت ہے‘‘، تو ابن عمر ؓ نے اس سے کہا: اب یہ جواب تم اپنے ساتھ لیتے جاؤ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎ : یہ شیعی آدمی تھا جو عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا، اسی لیے ان تینوں باتوں پر اللہ اکبرکہا، یعنی: جب ان میں یہ تینوں عیب ہیں تولوگ ان کی فضیلت کے کیوں قائل ہیں۔ ۲؎ : یہ اشارہ ہے غزوئہ احد سے ان بھاگنے والوں کی طرف جو جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے، ان میں عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ۳؎ : اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اس آیت میں نازل کی تھی ﴿وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾(سورة آل عمران :155) پوری آیت اس طرح ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾(آل عمران:155) یعنی: تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑہوئی تھی ، یہ لوگ اپنے بعض گناہوں کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آ گئے، لیکن یقین جانو کہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ ہے ہی بخشنے والا اورتحمل والا۔
عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ ٔ قریش کے لوگ ہیں، اس نے کہا: یہ کون شیخ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر ؓ ہیں تووہ ان کے پاس آیا اور بولا: میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہا ہوں آپ مجھے بتائیے، میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان ؓ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہیں تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر میں موجود نہیں تھے، انہوں نے کہا: ہاں، اس مصری نے ازراہ تعجب اللہ اکبر کہا۱؎، اس پر ابن عمر نے اس سے کہا: آؤ میں تیرے سوالوں کو تم پر واضح کر دوں: رہا ان (عثمان) کا احد کے دن بھاگنا ۲؎ تو تو گواہ رہ کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا اور بخش دیا ہے۳؎ اور رہی بدر کے دن ، ان کی غیر حاضری تو ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ’’تمہیں اس آدمی کے برابر ثواب اور اس کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا، جو بدر میں حاضر ہوگا‘‘،اور رہی ان کی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عثمان سے بڑھ کر وادی مکہ میں کوئی باعزت ہوتا تو عثمان ؓ کی جگہ رسول اللہ ﷺ اسی کو بھیجتے، رسول اللہ ﷺ نے عثمان کو مکہ بھیجا اور بیعت رضوان عثمان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے‘‘، اور اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: ’’یہ عثمان کی طرف سے بیعت ہے‘‘، تو ابن عمر ؓ نے اس سے کہا: اب یہ جواب تم اپنے ساتھ لیتے جاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎ : یہ شیعی آدمی تھا جو عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا، اسی لیے ان تینوں باتوں پر اللہ اکبرکہا، یعنی: جب ان میں یہ تینوں عیب ہیں تولوگ ان کی فضیلت کے کیوں قائل ہیں۔ ۲؎ : یہ اشارہ ہے غزوئہ احد سے ان بھاگنے والوں کی طرف جو جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے، ان میں عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ۳؎ : اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اس آیت میں نازل کی تھی ﴿وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾(سورة آل عمران :155) پوری آیت اس طرح ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾(آل عمران:155) یعنی: تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑہوئی تھی ، یہ لوگ اپنے بعض گناہوں کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آ گئے، لیکن یقین جانو کہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ ہے ہی بخشنے والا اورتحمل والا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Uthman ibn Abdullah ibn Mawhab reported that a man from Egypt performed Hajj. He saw some men sitting and asked, “Who are they?” The people said, “They are the Quraysh.” He asked, “Who is this shaykh?” They said, “He is Ibn Umar (RA) .” So, he came to him and said, “I am going to ask you about something, so tell me, I adjure by Allah and by the sanctity of this House. Do you know that Uthman fled from the Battle of Uhud?” He said, “Yes.” The man asked, “Do you know that he absented himself from the Bay’ah Ridwan and did not witness it?” He said, “Yes.” The man asked, “Do you know that he kept away from the Battle of Badr and did not participate?” He said, “Yes.” The man exclaimed, “Allah Akbar (Allah is the Greatest).” Ibn Umar (RA) said to him. “Stay till I explain to you what you have asked about. As for fleeing from the Battle of Uhud, I bear witness that. Allah surely overlooked and forgave him. As for absenting himself from the Battle of Badr, he had the Prophet’s (ﷺ) daughter as his wife and he had said to him, ‘You will get a reward of one who participated in Badr and the booty too.’ He commanded him to give her company, she being sick. As for keeping away from Bay’ah Ridwan, if there was anyone more honourable in the Makkah valley than Uthman then Allah’s Messenger (ﷺ) would have sent him in place of Uthman. Allah’s Messenger L sent him to Makkah and the Bay’ah Ridwan was taken after Uthman had gone to Makkah. Allah’s Messenger (ﷺ) said about his right hand, ‘This is Uthman’s hand,’ and struck with it his left hand, saying, This is for Uthman.’ So, go now, this being with you.” [Bukhari 3698, Abu Dawud 2726, Ahmed 5776