Tarimdhi:
Chapters on Virtues
(Chapter: The Virtues Of 'All bin AN Talib, May Allah Be Pleased With Him.. It Is Said That He Has Two Kunyah: AbU Turab, And Abul-Hasan )
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
3712.
عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ ( لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علی ؓ کو مقرر کیا، چنانچہ وہ اس سریہ (لشکر) میں گئے، پھر ایک لونڈی سے انہوں نے جماع کر لیا۱؎ لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیا ہے اسے ہم آپﷺ کو بتائیں گے، اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ ﷺ سے ملتے اور آپﷺ کو سلام کرتے تھے، پھر اپنے گھروں کو جاتے، چنانچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیا اور لوگوں نے آپﷺ کو سلام کیا تو ان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور ا س نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! کیا آپﷺ کو معلوم نہیں کہ علیؓ نے ایسا ایسا کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی تو آپﷺ نے اس سے بھی منہ پھیر لیا، پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپﷺ نے منہ پھیر لیا، پھر چوتھا شخص کھڑا ہوا تو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپﷺ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگ علیؓ کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علیؓ کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ علیؓ مجھ سے ہیں اور میں علیؓ سے ہوں۱؎ اور وہ دوست ہیں ہر اس مومن کا جو میرے بعد آئے گا‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: یہ لونڈی مال غنیمت میں سے تھی، تو لوگوں نے اس لیے اعتراض کیا کہ ابھی مال غنیمت کی تقسیم تو عمل میں آئی نہیں، اس لیے یہ مال غنیمت میں خرد برد کے ضمن میں آتا ہے، یا اس لیے اعتراض کیا کہ مال غنیمت کی لونڈیوں میں ضروری ہے کہ پہلے ایک ماہواری سے ان کے رحم کی صفائی ہو جائے، اورعلیؓ نے ایسا نہیں کیا ہے، یہ بات تو علی رضی اللہ عنہ سے بالکل بعید ہے کہ استبراء رحم (رحم کی صفائی) سے پہلے لونڈی سے ہم بستری کر بیٹھیں، ہوا یہ ہو گا کہ ایک دو دن کے بعد ہی وہ ماہواری سے فارغ ہوئی ہو گی، تو اب مزید ماہواری کی تو ضرورت تھی نہیں۔ ۲؎: اس جملہ سے اہل تشیع کا یہ استدلال کرنا کہ علی رضی اللہ عنہ سارے صحابہ سے افضل ہیں درست نہیں ہے کیوں کہ کچھ اور صحابہ بھی ہیں جن کے متعلق آپﷺ نے یہی جملہ کہا ہے، مثلا ً جلیبیب کے متعلق آپﷺ نے فرمایا: (هٰذَا مِنِّیْ وَ أَنَا مِنْهُ) اسی طرح اشعریین کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا: (فَهُمْ مِّنِّیْ وَ أَنَا مِنْهُمْ) یہ دونوں روایتیں صحیح مسلم کی ہیں، مسند احمد میں ہے: آپ ﷺ نے بنی ناجیہ کے متعلق فرمایا: (أنَا مِنْهُمْ وَهُمْ مِّنِّیْ)۔ نیز اس سے یہ استدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ’’علیؓ مجھ سے ہیں‘‘ کا مطلب ہے: علی آپﷺ کی ذات ہی میں سے ہیں، اس سے مراد ہے: نسب۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 5 / 261 :
أخرجه الترمذي ( 3713 ) و النسائي في " الخصائص " ( ص 13 و 16 - 17 ) و ابن
حبان ( 2203 ) و الحاكم ( 3 / 110 ) و الطيالسي في " مسنده " ( 829 ) و أحمد (
4 / 437 - 438 ) و ابن عدي في " الكامل " ( 2 / 568 - 569 ) من طريق جعفر بن
اليمان الضبعي عن يزيد الرشك عن مطرف عن عمران بن حصين رضي الله عنه قال :
" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جيشا ، و استعمل عليهم علي بن أبي طالب ،
فمضى في السرية ، فأصاب جارية ، فأنكروا عليه ، و تعاقدوا أربعة من أصحاب رسول
الله صلى الله عليه وسلم فقالوا : إن لقينا رسول الله صلى الله عليه وسلم
أخبرناه بما صنع علي و كان المسلمون إذا رجعوا من سفر بدأوا برسول الله صلى
الله عليه وسلم فسلموا عليه ، ثم انصرفوا إلى رحالهم ، فلما قدمت السرية سلموا
على النبي صلى الله عليه وسلم ، فقام أحد الأربعة فقال : يا رسول الله ! ألم تر
إلى علي بن أبي طالب صنع كذا و كذا ، فأعرض عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم ،
ثم قام الثاني ، فقال مثل مقالته ، فأعرض عنه ، ثم قام إليه الثالث ، فقال مثل
مقالته ، فأعرض عنه ، ثم قام الرابع فقال مثل ما قالوا ، فأقبل إليه رسول الله
صلى الله عليه وسلم و الغضب يعرف في وجهه فقال : " فذكره . و قال الترمذي : "
حديث حسن غريب ، لا نعرفه إلا من حديث جعفر بن سليمان " . قلت : و هو ثقة من
رجال مسلم و كذلك سائر رجاله و لذلك قال الحاكم : " صحيح على شرط مسلم " ، و
أقره الذهبي . و للحديث شاهد يرويه أجلح الكندي عن عبد الله بن بريدة عن أبيه
بريدة قال : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثين إلى اليمن ، على أحدهما
علي بن أبي طالب .. فذكر القصة بنحو ما تقدم ، و في آخره : " لا تقع في علي ،
فإنه مني و أنا منه و هو وليكم بعدي و إنه مني و أنا منه و هو وليكم بعدي " .
أخرجه أحمد ( 5 / 356 ) . قلت : و إسناده حسن ، رجاله ثقات رجال الشيخين غير
الأجلح ، و هو ابن عبد الله الكندي ، مختلف فيه ، و في " التقريب " : " صدوق
شيعي " . فإن قال قائل : راوي هذا الشاهد شيعي ، و كذلك في سند المشهود له شيعي
آخر ، و هو جعفر بن سليمان ، أفلا يعتبر ذلك طعنا في الحديث و علة فيه ؟ !
فأقول : كلا لأن العبرة في رواية الحديث إنما هو الصدق و الحفظ ، و أما المذهب
فهو بينه و بين ربه ، فهو حسيبه ، و لذلك نجد صاحبي " الصحيحين " و غيرهما قد
أخرجوا لكثير من الثقات المخالفين كالخوارج و الشيعة و غيرهم ، و هذا هو المثال
بين أيدينا ، فقد صحح الحديث ابن حبان كما رأيت مع أنه قال في راويه جعفر في
كتابه " مشاهير علماء الأمصار " ( 159 / 1263 ) : " كان يتشيع و يغلو فيه " .
بل إنه قال في ثقاته ( 6 / 140 ) : " كان يبغض الشيخين " . و هذا ، و إن كنت في
شك من ثبوته عنه ، فإن مما لا ريب فيه أنه شيعي لإجماعهم على ذلك ، و لا يلزم
من التشيع بغض الشيخين رضي الله عنهما ، و إنما مجرد التفضيل . و الإسناد الذي
ذكره ابن حبان برواية تصريحه ببغضهما ، فيه جرير بن يزيد بن هارون ، و لم أجد
له ترجمة ، و لا وقفت على إسناد آخر بذلك إليه . و مع ذلك فقد قال ابن حبان عقب
ذاك التصريح : " و كان جعفر بن سليمان من الثقات المتقنين في الروايات غير أنه
كان ينتحل الميل إلى أهل البيت ، و لم يكن بداعية إلى مذهبه ، و ليس بين أهل
الحديث من أئمتنا خلاف أن الصدوق المتقن إذا كان فيه بدعة و لم يكن يدعو إليها
أن الاحتجاج بأخباره جائز " . على أن الحديث قد جاء مفرقا من طرق أخرى ليس فيها
شيعي . أما قوله : " إن عليا مني و أنا منه " . فهو ثابت في " صحيح البخاري " (
2699 ) من حديث البراء بن عازب في قصة اختصام علي و زيد و جعفر في ابنة حمزة ،
فقال صلى الله عليه وسلم لعلي رضي الله عنه : " أنت مني و أنا منك " . و روي من
حديث حبشي بن جنادة ، و قد سبق تخريجه تحت الحديث ( 1980 ) . و أما قوله : " و
هو ولي كل مؤمن بعدي " . فقد جاء من حديث ابن عباس ، فقال الطيالسي ( 2752 ) :
حدثنا أبو عوانة عن أبي بلج عن عمرو بن ميمون عنه " أن رسول الله صلى الله عليه
وسلم قال لعلي : " أنت ولي كل مؤمن بعدي " . و أخرجه أحمد ( 1 / 330 - 331 ) و
من طريقه الحاكم ( 3 / 132 - 133 ) و قال : " صحيح الإسناد " ، و وافقه الذهبي
، و هو كما قالا . و هو بمعنى قوله صلى الله عليه وسلم : " من كنت مولاه فعلي
مولاه .. " و قد صح من طرق كما تقدم بيانه في المجلد الرابع برقم ( 1750 ) .
فمن العجيب حقا أن يتجرأ شيخ الإسلام ابن تيمية على إنكار هذا الحديث و تكذيبه
في " منهاج السنة " ( 4 / 104 ) كما فعل بالحديث المتقدم هناك ، مع تقريره رحمه
الله أحسن تقرير أن الموالاة هنا ضد المعاداة و هو حكم ثابت لكل مؤمن ، و علي
رضي الله عنه من كبارهم ، يتولاهم و يتولونه . ففيه رد على الخوارج و النواصب ،
لكن ليس في الحديث أنه ليس للمؤمنين مولى سواه ، و قد قال النبي صلى الله عليه
وسلم : " أسلم و غفار و مزينة و جهينة و قريش و الأنصار موالي دون الناس ، ليس
لهم مولى دون الله و رسوله " . فالحديث ليس فيه دليل البتة على أن عليا رضي
الله عنه هو الأحق بالخلافة من الشيخين كما تزعم الشيعة لأن الموالاة غير
الولاية التي هي بمعنى الإمارة ، فإنما يقال فيها : والي كل مؤمن . هذا كله من
بيان شيخ الإسلام و هو قوي متين كما ترى ، فلا أدري بعد ذلك وجه تكذيبه للحديث
إلا التسرع و المبالغة في الرد على الشيعة ، غفر الله لنا و له .
عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ ( لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علی ؓ کو مقرر کیا، چنانچہ وہ اس سریہ (لشکر) میں گئے، پھر ایک لونڈی سے انہوں نے جماع کر لیا۱؎ لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیا ہے اسے ہم آپﷺ کو بتائیں گے، اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ ﷺ سے ملتے اور آپﷺ کو سلام کرتے تھے، پھر اپنے گھروں کو جاتے، چنانچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیا اور لوگوں نے آپﷺ کو سلام کیا تو ان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور ا س نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! کیا آپﷺ کو معلوم نہیں کہ علیؓ نے ایسا ایسا کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی تو آپﷺ نے اس سے بھی منہ پھیر لیا، پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپﷺ نے منہ پھیر لیا، پھر چوتھا شخص کھڑا ہوا تو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپﷺ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگ علیؓ کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علیؓ کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ علیؓ مجھ سے ہیں اور میں علیؓ سے ہوں۱؎ اور وہ دوست ہیں ہر اس مومن کا جو میرے بعد آئے گا‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: یہ لونڈی مال غنیمت میں سے تھی، تو لوگوں نے اس لیے اعتراض کیا کہ ابھی مال غنیمت کی تقسیم تو عمل میں آئی نہیں، اس لیے یہ مال غنیمت میں خرد برد کے ضمن میں آتا ہے، یا اس لیے اعتراض کیا کہ مال غنیمت کی لونڈیوں میں ضروری ہے کہ پہلے ایک ماہواری سے ان کے رحم کی صفائی ہو جائے، اورعلیؓ نے ایسا نہیں کیا ہے، یہ بات تو علی رضی اللہ عنہ سے بالکل بعید ہے کہ استبراء رحم (رحم کی صفائی) سے پہلے لونڈی سے ہم بستری کر بیٹھیں، ہوا یہ ہو گا کہ ایک دو دن کے بعد ہی وہ ماہواری سے فارغ ہوئی ہو گی، تو اب مزید ماہواری کی تو ضرورت تھی نہیں۔ ۲؎: اس جملہ سے اہل تشیع کا یہ استدلال کرنا کہ علی رضی اللہ عنہ سارے صحابہ سے افضل ہیں درست نہیں ہے کیوں کہ کچھ اور صحابہ بھی ہیں جن کے متعلق آپﷺ نے یہی جملہ کہا ہے، مثلا ً جلیبیب کے متعلق آپﷺ نے فرمایا: (هٰذَا مِنِّیْ وَ أَنَا مِنْهُ) اسی طرح اشعریین کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا: (فَهُمْ مِّنِّیْ وَ أَنَا مِنْهُمْ) یہ دونوں روایتیں صحیح مسلم کی ہیں، مسند احمد میں ہے: آپ ﷺ نے بنی ناجیہ کے متعلق فرمایا: (أنَا مِنْهُمْ وَهُمْ مِّنِّیْ)۔ نیز اس سے یہ استدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ’’علیؓ مجھ سے ہیں‘‘ کا مطلب ہے: علی آپﷺ کی ذات ہی میں سے ہیں، اس سے مراد ہے: نسب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Imran ibn Husayn (RA) narrated Allah’s Messenger (ﷺ) sent an army and appointed an amir, Ali ibn Abu Talib over them. They were a sariyah. He took a female captive from the booty. The people disliked that and four of the sahabah resolved to inform Allah’s Messenger (ﷺ) of what Ali ibn Abu Talib (RA) did, on meeting him. The Muslims used to meet Allah’s Messenger first thing on returning home from a journey, and then go to their homes. Thus, when this sariyah returned, they greeted the Prophet (ﷺ) One of the four stood and said, “O Messenger, of Allah, do you know that Ali ibn Abu Talib did this-and-that.” Allah’s Messenger turned his face away from him. Then the second stood up and spoke as the first had, and he turned away from him.Then the third stood and spoke similar words, and he turned his face away from him. Then, the fourth stood and spoke like they had spoken. Allah’s Messenger (ﷺ) turned to him and anger was obvious on his face. He said, ‘What do you expect from Ali? What do you expect from Ali. Ali is from me and I from him and he is the wali (friend or guardian), of all Muslims after me.” --------------------------------------------------------------------------------