Tarimdhi:
Chapters on Virtues
(Chapter: The Virtues Of Abu Muhammad Al-Hassan Bin Ali Bin Abi Talib And Al-Husain Bin Abi Talib May Allah Be Pleased With Him)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
3781.
حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تم نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جا سکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئے میں آپﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپﷺ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چنانچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپﷺ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپﷺ نے عشاء پڑھی، پھر آپﷺ لوٹے تو میں بھی آپﷺ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپﷺ نے میری آواز سنی تو فرمایا: ’’کون ہو؟ حذیفہ؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپﷺ نے کہا: ’’کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو‘‘ (پھر) آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین ؓ اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان ) کے سردار ہیں‘‘۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: خصوصی فرشتہ کے ذریعہ مذکورہ خوشخبری ان تینوں ماں بیٹوں کی خصوصی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 6 / 664 :
هو من حديث قتادة عن سالم بن أبي الجعد عن معدان بن أبي طلحة عن ثوبان قال
: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره . و قد رواه عنه جمع من الثقات
هكذا ، فلنذكر أسانيدهم : 1 و 2 - قال أحمد ( 5 / 276 و 282 ) : حدثنا عفان
حدثنا همام و أبان قالا : حدثنا قتادة به . ثم رواه ( 5 / 277 ) : حدثنا يزيد
عن همام به . 3 - سعيد بن أبي عروبة عن قتادة به . أخرجه أحمد ( 5 / 281 ) :
حدثنا محمد بن بكر و عبد الوهاب قالا : حدثنا سعيد به . و أخرجه البيهقي ( 5 /
355 ) من طريق أخرى عن عبد الوهاب بن عطاء : أنبأنا سعيد به . و أخرجه الترمذي
( 1573 ) و الدارمي ( 2 / 262 ) و النسائي في " الكبرى " ( 5 / 232 / 8764 ) و
ابن ماجه ( 2412 ) من طرق أخرى عن سعيد به . 4 - شعبة عن قتادة به . أخرجه ابن
حبان ( 1676 ) ، - ( 5 / 281 - 282 ) و ابن المظفر في " غرائب شعبة " ( ق 12 /
1 ) و ابن عساكر في " تاريخ دمشق " ( 2 / 18 / 1 ) من طرق عنه . 5 - أبو عوانة
عن قتادة به . أخرجه الحاكم ( 2 / 26 ) من طريق أبي الوليد الطيالسي و عفان بن
مسلم عنه . و البيهقي ( 9 / 101 - 102 ) من طريق أخرى عن أبي الوليد وحده ، و
قال الحاكم : " صحيح على شرط الشيخين " . و وافقه الذهبي . و خالفهما في
الإسناد قتيبة بن سعيد فقال : حدثنا أبو عوانة .. فذكره ، دون أن يذكر فيه
معدان بن أبي طلحة . أخرجه الترمذي ( 1572 ) و قال : " و رواية سعيد أصح ، يعني
في الإسناد ، لأنه زاد فيه رجلا و أسنده ، و لم يسمع سالم من ثوبان " . قلت : و
مما لا شك فيه أن رواية سعيد أصح من رواية أبي عوانة هذه لما ذكرنا لها من
المتابعات ، و لموافقة رواية الطيالسي و عفان عن أبي عوانة لها ، و عليه فرواية
قتيبة عنه شاذة . و اعلم أن كل هذه الروايات و الطرق في كل المصادر التي
عزوناها إليها وقعت الخصلة الأولى من الثلاث فيه بلفظ : " الكبر " . إلا في
رواية الترمذي وحده عن سعيد ، فهي عنده بلفظ " الكنز " ، و قال الترمذي عقبها :
" قال أحمد : ( الكبر ) تصحيف ، صحفه غندر محمد بن جعفر ، حديث سعيد : " من
فارق الروح منه الجسد .. " ، و إنما هو الكنز " . فأقول : رواية محمد بن جعفر ،
إنما هي عن شعبة ، و هي الطريق ( 4 ) عن قتادة ، فأخشى أن يكون ما في " الترمذي
" ( حديث سعيد ) محرفا من ( حديث شعبة ) . و حديث محمد بن جعفر عن شعبة هو في "
المسند " في المكان المشار إليه هناك ، و هو فيه مقرون برواية أحمد عن بهز عن
شعبة ، و قال في آخرها : " قال بهز : ( و الكبر ) " . و هذا القول إنما يقوله
المحدثون حينما يكون هناك خلاف بين بعض الرواة في لفظ ما ، و هذا من دقتهم في
الرواية جزاهم الله خير الجزاء ، و إذا كان ما ذكره الترمذي عن الإمام أحمد أن
ابن جعفر تصحف عليه هذا اللفظ فقال : ( الكبر ) و إنما هو ( الكنز ) محفوظا ،
فأنا أتصور أن قول أحمد في آخر الحديث : " قال بهز : ( و الكبر ) " ، أتصور أن
هذا اللفظ فيه خطأ ، و أن الصواب فيه ( و الكنز ) ، لأن ابن جعفر هو الذي قال :
( و الكبر ) ، و إن لم نقل هذا تناقض ما في " المسند " مع نقل الترمذي عن أحمد
. و الله أعلم . و بالجملة فسواء كان هذا أو ذاك ، فادعاء أن لفظة ( الكبر )
محرفة عن ( الكنز ) من محمد بن جعفر يدفعها الطرق الأخرى عن شعبة من جهة ، و
موافقتها للطرق الأخرى من جهة أخرى ، فإنها كلها متفقة على اللفظ الأول ( الكبر
) ، إلا إن قال قائل : إنها جميعها محرفة ! و هذا مما لا يتصور أن يصدر من عاقل
. و لعله لما ذكرنا من التحقيق تتابع العلماء على إيراد الحديث بهذا اللفظ
المحفوظ ( الكبر ) ، فذكره البغوي في " شرح السنة " تعليقا ( 11 / 118 ) و
المنذري في " الترغيب " ( 2 / 188 و 3 / 32 و 4 / 15 ) و قال : " و قد ضبطه بعض
الحفاظ ( الكنز ) بالنون و الزاي ، و ليس بمشهور " . و كذلك هو في " المشكاة "
( 2921 ) و " الزيادة على الجامع الصغير " ( صحيح الجامع 6287 ) و " الجامع
الكبير " و غيرهم
حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تم نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جا سکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئے میں آپﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپﷺ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چنانچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپﷺ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپﷺ نے عشاء پڑھی، پھر آپﷺ لوٹے تو میں بھی آپﷺ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپﷺ نے میری آواز سنی تو فرمایا: ’’کون ہو؟ حذیفہ؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپﷺ نے کہا: ’’کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو‘‘ (پھر) آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین ؓ اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان ) کے سردار ہیں‘‘۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: خصوصی فرشتہ کے ذریعہ مذکورہ خوشخبری ان تینوں ماں بیٹوں کی خصوصی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Hudhayfah (RA) narrated: My mother asked me, “When do you go to the Prophet (ﷺ) . I said that I had not gone to him since so many days. She became angry at me, so I said to her, “Exscuse me now, but I will go to the Prophet (ﷺ) and pray the maghrib salah with him and request him to seek forgiveness for me and for you.” So, I went to the Prophet (ﷺ) and prayed the maghrib with him. He was occupied in salah till he prayed the isha. Then he moved out and I followed him. He heard me and asked,”Who is he, Hudhayfah?” I said, “Yes.” He asked, “What do you need? May Allah forgive you and your mother! This, here, is an angel. He has never come down to earth before this night. He has asked permission of his Lord to convey greetings to me and give me good tidings that Fatimah is the chief of women of paradise and that Hasan and Husayn are the chiefs of the youth of paradise.” [Ah23390]