Tarimdhi:
Chapters on Virtues
(Chapter: The Virtue Of Ubay Bin Ka'b, May Allah Be Pleased With Him)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
3898.
ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں‘‘، چنانچہ آپﷺ نے انہیں ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ پڑھ کر سنائی، اس میں یہ بات بھی کہ بے شک دین والی، اللہ کے نزدیک تمام ادیان وملل سے کٹ کر اللہ کی جانب یکسو ہوجانے والی مسلمان عورت ہے، نہ یہودی، نصرانی اور مجوسی عورت، جو کوئی نیکی کرے گا تو اس کی ناقدری ہرگز نہیں کی جائے گی اور آپﷺ نے انہیں یہ بھی بتایا کہ ’’انسان کے پاس مال سے بھری ہوئی ایک وادی ہو تو وہ دوسری بھی چاہے گا، اور اگر اسے دوسری مل جائے تو تیسری چاہے گا، اور انسان کا پیٹ صرف مٹی ہی بھرسکے گی اور اللہ اسی کی توبہ قبول کرتا ہے جو واقعی توبہ کرے‘‘۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲۔ یہ حدیث اس کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، اسے عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد سے انہوں نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں‘‘۔۳۔ اسے قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا: ’’اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں‘‘۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: حقیقت میں انسان ایسا حریص ہے کہ وہ دنیا کے مال و متاع سے کسی بھی طرح سیر نہیں ہوتا اسے قبر کی مٹی ہی آسودہ کر سکتی ہے۔ (دیکھئے حدیث رقم:۳۷۹۳ کا اوراس کے حواشی) یہ حدیث پیچھے معاذ بن جبل، زیدبن ثابت، اُبی بن کعب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم کے اکٹھے باب میں بھی آ چکی ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث پر ابی بن کعب کا باب قائم کر کے ان کی فضیلت مزید بیان کی ہے، اس لیے کہ وہ بہت بڑے عالم بھی تھے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 6 / 963 :
أخرجه الترمذي ( 9 / 400 / 3894 ) و الحاكم ( 2 / 224 ) و الطيالسي ( رقم ( 539
) و أحمد ( 5 / 131 - 132 ) و عبد الله بن أحمد ( 5 / 132 ) و أبو نعيم في "
الحلية " ( 4 / 187 ) كلهم من طريق شعبة عن عاصم قال : سمعت زر بن حبيش يحدث عن
أبي بن كعب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له : فذكره . و الزيادة
لعبد الله ، و قال الترمذي : " حديث حسن صحيح " . و أقره ابن كثير في " التفسير
" . و قال الحاكم : " صحيح الإسناد " . و وافقه الذهبي ، و أقره الحافظ في عدة
مواضع من " الفتح " ( 7 / 127 و 8 / 725 ) و قال ( 11 / 257 ) : " و سنده جيد "
. و أقول : الأصل في هذا الإسناد التحسين فقط للخلاف المعروف في عاصم - و هو
ابن أبي النجود - في الحديث ، و لكن لما كان صدوقا في نفسه ، و ثقة و إماما في
القراءة ، و قرأ على شيخه في هذا الحديث - زر بن حبيش - و كان الحديث في
القراءة ، فهو إذن يتعلق باختصاصه ، فالنفس تطمئن لحفظه إياه جيدا أكثر من حفظه
للأحاديث الأخرى التي لا تتعلق بالقراءة ، و هذا ظاهر جدا ، و لذا أخرجه الضياء
في " المختارة " ( 3 / 368 - 369 ) . و لحديث الترجمة منه طريق أخرى عند
الطبراني في " المعجم الكبير " ( 1 / 170 / 542 ) بسند ضعيف عن الشعبي عن ابن
عباس عن أبي مرفوعا بلفظ : " لو كان للإنسان واديان من المال .. " . لكن له
إسناد صحيح عن ابن عباس ، رواه الشيخان و غيرهما ، و هو مخرج في " أحاديث
المشكلة " ( 18 / 14 ) و يأتي برواية أخرى بالرقم التالي . و جملة القراءة عليه
رضي الله عنه لها طريق آخر ، يرويه عبد الله بن عبد الرحمن ابن أبزى عن أبيه عن
أبي مرفوعا بلفظ : " إن الله تعالى أمرني أن أعرض القرآن عليك " . قال : و
سماني لك ربي تبارك و تعالى ؟ قال : *( بفضل الله و برحمته فبذلك فلتفرحوا )* ،
هكذا قرأها أبي ، و في رواية زاد : " فقلت له : يا أبا المنذر ! ففرحت بذلك ؟
قال : و ما يمنعني ؟ والله تبارك و تعالى يقول : *( قل بفضل الله و برحمته
فبذلك فلتفرحوا هو خير مما يجمعون )* . قال مؤمل : قلت لسفيان : هذه القراءة في
الحديث ؟ قال : نعم " . و أخرجه أبو داود ( 3981 ) و ابن جرير في " التفسير " (
15 / 108 / 17687 و 17688 ) و الحاكم ( 2 / 240 - 241 ) و قال : " صحيح الإسناد
" . و وافقه الذهبي ، و هو كما قالا إلا أنه وقع عنده فعل ( فليفرحوا ) و (
يجمعون ) بالمثناة التحتية فيهما . و كذا وقع الفعل الثاني في " المسند " ، و
أظن ذلك كله خطأ من الناسخ أو الطابع ، و الصواب فيهما بالتاء المثناة ، فهي
قراءة أبي ، و الأولى قراءة عامة القراء ، كما قال ابن جرير . و للجملة
المذكورة شاهد من حديث أنس رضي الله عنه أخرجه الشيخان ، و ابن حبان ( 9 / 139
/ 7100 ) و أحمد ( 3 / 130 و 185 و 218 و 233 و 273 و 284 ) و غيرهم .
الحديث الثاني : عن ابن عباس رضي الله عنه قال : " جاء رجل إلى عمر يسأله ،
فجعل ينظر إلى رأسه مرة ، و إلى رجليه أخرى ، هل يرى من البؤس شيئا ؟ ثم قال له
عمر : كم مالك ؟ قال : أربعون من الإبل ! قال ابن عباس : صدق الله و رسوله : "
لو كان لابن آدم واديان من ذهب .. " الحديث . فقال عمر : ما هذا ؟ فقلت : هكذا
أقرأنيها أبي . قال : فمر بنا إليه . قال : فجاء إلى أبي ، فقال : ما يقول هذا
؟ قال أبي : هكذا أقرأنيها رسول الله صلى الله عليه وسلم " .
ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں‘‘، چنانچہ آپﷺ نے انہیں ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ پڑھ کر سنائی، اس میں یہ بات بھی کہ بے شک دین والی، اللہ کے نزدیک تمام ادیان وملل سے کٹ کر اللہ کی جانب یکسو ہوجانے والی مسلمان عورت ہے، نہ یہودی، نصرانی اور مجوسی عورت، جو کوئی نیکی کرے گا تو اس کی ناقدری ہرگز نہیں کی جائے گی اور آپﷺ نے انہیں یہ بھی بتایا کہ ’’انسان کے پاس مال سے بھری ہوئی ایک وادی ہو تو وہ دوسری بھی چاہے گا، اور اگر اسے دوسری مل جائے تو تیسری چاہے گا، اور انسان کا پیٹ صرف مٹی ہی بھرسکے گی اور اللہ اسی کی توبہ قبول کرتا ہے جو واقعی توبہ کرے‘‘۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲۔ یہ حدیث اس کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، اسے عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد سے انہوں نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں‘‘۔ ۳۔ اسے قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا: ’’اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں‘‘۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: حقیقت میں انسان ایسا حریص ہے کہ وہ دنیا کے مال و متاع سے کسی بھی طرح سیر نہیں ہوتا اسے قبر کی مٹی ہی آسودہ کر سکتی ہے۔ (دیکھئے حدیث رقم:۳۷۹۳ کا اوراس کے حواشی) یہ حدیث پیچھے معاذ بن جبل، زیدبن ثابت، اُبی بن کعب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم کے اکٹھے باب میں بھی آ چکی ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث پر ابی بن کعب کا باب قائم کر کے ان کی فضیلت مزید بیان کی ہے، اس لیے کہ وہ بہت بڑے عالم بھی تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Ubayy ibn Ka’b (RA) reported that Allah’ Messenger (ﷺ) said to him, “Allah has commanded me that I should recite the Qur’an to you.” Then he recited to him Surah al-Bayyinah, 98. He also recited: Surely, the religion with Allah is upright Islam not Judaism and not Christianity and not Magian. He, who performs good deeds, does not disbelieve. He then said, “If the son of Aadam has a valley full of wealth, he would crave for a second, and if he had a second, he would crave for a third. Nothing will fill the belly of the son of Aadam but dust. And Allah relents to one who repents.” --------------------------------------------------------------------------------