تشریح:
۱؎: کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے، ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہا ہے، لیکن جمہور نے اسے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں، قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسا اوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتا ہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتا ہے، نیز بظاہر یہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ((لَا تَحِلُّ الصَّدقَةُ إلَّا لِخَمْسَةٍ: لِعَامِلٍ عَلَيْهَا أَوْ رَجُلِِ اِشْتَرَاهَا بِمَالِهِ...الحديث)) کے معارض ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول کی جائیگی اور ابو سعید رضی اللہ عنہ والی روایت بیان جواز پر، یا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي وابن الجارود) . إسناده: حدثنا عبد القه بن مسلمة عن سالك عن نافع عن عبد الله بن عمر.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخبن؛ وقد أخرجاه كما تراه في " الإرواء " (849) .