تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) میدان میں نکلے بغیر صرف منبر پر دعا کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا متعدد مرتبہ کا عمل ہے۔
(2) ہربار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوکر بارش کا نازل ہوجانا ایک معجزاتی شان کا حامل وصف ہے۔ خصوصاً دعا کے فوراً بعد بارش کا پورے زور سے آ جانا مقام نبوت کی برکت ہے۔
(3) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باطنی خوبیوں اور کمالات کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن وجمال سے بھی بدرجہ اکمل متصف تھے۔
(4) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے وسیلے سے دعا مانگنا ابو طالب کا عمل ہے۔ جو مرتے دم تک ایمان کی دولت سے محروم رہا تھا۔ صحابہ کرام جو رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کوخوب سمجھتے تھے اور توحید کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضوں سے بھی کما حقہ واقف تھے۔ وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ پکڑتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دعا کرائی اور فرمایا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے۔ تو ہمیں بارش دے دیتا تھا۔ اب ہم تجھ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں پانی عطا فرما۔ (صحیح البخاري، الإستسقاء، باب سوال الناس الإمام الإستسقاء إذا قحطوا، حدیث:1010) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کو وسیلہ بنایا ہے۔ ان کی ذات کو نہیں ورنہ اگر ذات کو وسیلہ بنانا ہوتا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بناتے جن سے افضل کوئی ذات نہیں۔
(5) یہ شعر ابو طالب کے قصیدے کا ہے۔ جو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کہا تھا۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری کتاب الاستسقاء باب:3 میں اس قصیدے کے کچھ حصے نقل کیے ہیں۔ اور سیرت ابن ہشام میں یہ پورا طویل قصیدہ موجود ہے۔ (السیرة النبویة لإ بن ہشام:318،309/1، مطبوعہ دارإحیاءالتراث العربی)