تشریح:
(1) جس طرح کنجی کے بغیر تالا نہیں کھلتا اسی طرح حدث اصغر اور حدث اکبر سے پاک ہوئے بغیر نماز میں داخل ہونا ممکن نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ طہارت نماز کے لیے شرط ہے۔
(2) تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنے سے نماز کے منافی تمام امور ممنوع ہوجاتے ہیں اس لیے نماز میں داخل ہوتے ہی وقت کہی جانے والی تکبیر کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے نماز میں اس کی وہی حیثیت ہے جو حج میں احرام باندھنے کی ہے۔ جس سے حاجی پر کچھ پابندیاں لگ جاتی ہیں۔
(3) تکبیر تحریمہ سے لگنے والی پابندیاں اس وقت اٹھتی ہیں جب نمازی سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہوتا ہے اس لیے اسے تحلیل کہا گیا ہے، یعنی جو چیزیں نماز میں حرام اور ممنوع تھیں اب وہ حلال اور جائز ہو گئیں۔
(4) نماز میں داخل ہونے کا طریقہ تکبیر ہی ہے اس کے علاوہ کسی دوسرے کلمے سے یا کسی دوسری زبان میں اللہ کا نام لیکر انسان نماز میں داخل نہیں ہوسکتا بعض علماء کا یہ موقف درست نہیں کہ اللہ کا نام کسی طرح سے بھی لے لیا جائے نماز شرع ہوجاتی ہے۔ خواہ ’’اللہ اعظم‘‘ کہا جائے یا ’’اللہ کبیر‘‘ وغیرہ۔
(5) بعض علماء کی رائے ہے کہ نمازی نماز کے باقی اعمال پورے کرنے کے بعد سلام کی بجائے کوئی ایسا عمل کرلے جونماز کے منافی ہوتو نماز مکمل ہوجاتی ہے۔ جبکہ اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے سلام۔ اس کے متعلق احادیث (حدیث:914 تا 917) آگے آئیں گی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وصححه الحاكم وابن السكن وكذا الحافظ،
وحسّنه النووي، وأورده المقد سي في الأ حاديث المختارة )
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا وكيع عن سفيان عن ابن عَقيل عن
محمد ابن الحنفية عن علي.
وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير ابن عقيل- وهو
عبد الله بن محمد بن عقيل-؛ وقد تكلم فيه من قِبل حفظه، وهو صدوق. وقد
قال الذهبي:
حديثه في مرتبة الحسن، كان أحمد وإسحاق يحتجان به . وقال الحافظ
(1/102)
في التقريب :
صدوق في حديثه لين، ويقال: تغير بأخرة .
والحديث أعاده المصنف رحمه الله في باب الإمام يحدث بعدما يرفع رأسه
من الصلاة ، وسوف لا نعيده في مختصرنا هذا؛ لأنه بهذا السند.
والحديث أخرجه الترمذي أيضا؛ والدارمي وابن ماجه والطحاوي والدارقطني،
والبيهقي (2/173 و 379) ، وأحمد (2/رقم 1006- 1072) ، والخطيب في
تاريخه (10/197) من طرق عن سفيان... به.
ورواه ابن أبي شيبة وإسحاق بن راهويه والبزار في مسانيدهم - كما في
نصب الراية (1/307) -. ثمّ قال الترمذي:
هذا الحديث أصح شيء في هذا الباب وأحسن، وعبد الله بن محمد بن
عقيل صدوق، وقد تكلم فيه بعض أهل العلم من قِبل حفظه، وسمعت محمد
ابن إسماعيل يقول: كان أحمد بن حنبل وإسحاق بن إبراهيم والحميدي يحتجون
بحديث عبد الله بن محمد بن عقيل. قال محمد: وهو مقارب الحديث . وقال
النووي في المجموع (3/289) :
رواه أبو داود والترمذي وغيرهما بإسناد صحيح؛ إلا أن فيه عبد الله بن محمد
ابن عقيل، قال الترمذي... 0
قلت: فذكر ما نقلناه عنه آنفاً. ونقل الزيلعي عنه أنه قال في الخلاصة :
هو حديث حسن . وقال الحافظ:
وصححه الحاكم وابن السكن . وقال في الفتح (2/257) :
أخرجه أصحاب السنن بسند صحيح !
(1/103)
كذا قال! ولكن الحديث له شواهد يرقى بها إلى درجة الصحيح، وقد أوردتها
في كتابنا الكبير في صفة صلاة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من التكبير إلى التسليم ؛ ويراجع له
نصب الراية وغيرها.
وأما تصحيح الحاكم له؛ فلم أقف عليه! وهو إنما أورد الحديث في المستدرك
(1/132) تعليقاً بدون تصحيح؛ فلعله صححه في بعض كتبه الأخرى.
وأخرجه الضياء في المختارة (1/243) .