تشریح:
(1) جس چیز میں آگ تبدیلی کردے اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے آگ پر پکا کر یا بھون کر تیار کیا گیا ہو۔
(2) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ یہ حکم وجوبی نہیں ہے کیونکہ انھوں نے خود رسول اللہ ﷺ کو گوشت کھا کر دوبارہ وضو کیے بغیر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ اس لیے انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کے لیے سوال کیا۔ لیکن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے غالباً آپ ﷺ کا یہ عمل نہیں دیکھا اس لیے وہ اپنے موقف پر قائم رہے یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس اجازت کا علم تو ہو لیکن وہ چاہتے ہوں کہ لوگ افضلیت کو اختیار کریں۔
(3) جب حدیث میں کسی حکم کو عام رکھا گیا ہو تو اسے عام ہی سمجھنا چاہیے حتی کہ دوسرے دلائل سے معلوم ہوجائے کہ فلاں صورت اس عموم میں شامل نہیں۔
(4) آئندہ باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکم وجوبی نہیں یعنی آگ کی پکی ہوئی چیز کھا پی کروضو کرنا لازم نہیں بہتر اور افضل ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إنما يصح من حديثه بلفظ: قال:
كنا يوماً عند رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في الصُفَّةِ، فوُضِعَ لنا طعام؛ فأكلنا، فأقيمت
الصلاة، فصلينا ولم نتوضأ. أخرجه أحمد بسند صحيح) .
إسناده: حدثنا أحمد بن عمرو بن السَّرْحِ: ثنا عبد الملك بن أبي كريمة- قال
ابن السرح: ابن أبي كريمة من خيار المسلمين- قال: حدثني عبيد بن ثُمامة
المرادي قال: قدم علينا مصرَ عبد الله بن الحارث بن جَزْء من أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فسمعته يحدث في مسجد مصر لمحال.
وهذا إسناد رجاله ثقات؛ غير عبيد بن ثمامة المرادي- ويقال: عتبة-؛ لم يرو
عنه غير ابن أبي كريمة هذا- كما في الميزان -، ولم يوثقه أحد؛ فهو مجهول.
والحديث سكت عليه المنذري في مختصره (رقم 181) !
ورواه ابن عبد الحكم في فتوح مصر (300) بسند المؤلف.
(1/350)
وله طريق أخرى باللفط المذكور آنفاً: عند أحمد (4/190) وإسناده هكذا: ثنا
هارون- قال ابنه عبد الله: وسمعته أنا من هارون- قال: ثنا عبد الله بن وهب قال:
أخبرني حيوة بن شريح قال: أخبرني عقبة بن مسلم عن عبد الله بن الحارث بن
جزء الزُّبَيْدِيّ.
وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير عقبة بن مسلم، وهو
ثقة اتفاقاً.
وله إسنادان آخران عن عبد الله بن الحارث: رواهما ابن لهيعة عن خالد بن
أبي عمران وسليمان بن زياد الحضرمي عنه بلفظ:
أكلنا مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِواءً في المسجد، ثم أقيمت الصلاة، فضربنا
أيدينا في الحصى، ثم قمنا فصلينا ولم نتوضأ لما.
أخرجه أحمد (4/191) .
وأخرجه الطحاوي (1/40) من هذا الوجه، لكنه لم يذكر خالد بن أبي عمران
في الإسناد، وهو رواية لأحمد (4/190) .
وهذا إسناد صحيح في المتابعات.
ورواه ابن ماجه (2/310) مختصراً