تشریح:
(1) اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اول وقت میں ادا کرتے تھے ۔
(2) نمازوں میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وعظ و نصیحت فرماتے یا آپ سے مسائل دریافت کیے جاتے تو عورتیں بھی سنتیں اور دین کا علم حاصل کرتیں۔ بعض اوقات کوئی عورت خود بھی کوئی مسئلہ دریافت کر لیتی تھی۔ اب بھی عورتیں آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز کے لیے مسجد میں آنا چاہیں تو انہیں منع نہیں کرنا چاہیے اگرچہ گھر میں نماز پڑھنا عورتوں کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
(3) ام المومنین کی وضاحت سے پتا چلتا ہے کہ عورتوں کے پہچانے نہ جانے کا سبب یہ ہوتا تھا کہ نماز سے فراغت کے وقت اتنی روشنی نہیں ہوتی تھی کہ معلوم ہو سکے کہ چادر اوڑھ کر جانے والی یہ عورت کون ہے؟ زیادہ روشنی میں باپردہ ہونے کے باوجود اس عورت کو پہچانا جا سکتا ہے جو رشتہ داروں میں سے ہو اور مرد اس سے واقف ہو۔
(4) فجر میں قراءت طویل ہونے کے باوجود اتنی جلدی فارغ ہو جانے سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ نماز بہت جلد کھڑی ہو جاتی تھی اور نماز اول وقت میں ادا کی جاتی تھی۔
(5) عورتیں نماز کا سلام پھیرنے کے بعد ذکر اذکار کے لیے نہیں بیٹھتی تھیں بلکہ فوراً اٹھ کر چلی جاتی تھیں جب کہ مرد اس وقت تک نہ اٹھتے تھے جب تک تمام عورتیں مسجد سے چلی نہ جاتیں۔ جیسے کہ دیگر احادیث میں صراحت ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذا قال الحافظ، وابن خزيمة) .
(2/296)
إسناده: حدثنا مسدد: نا بشر بن المُفَضَّل: نا داود بن أبي هند عن أبي نضرة
عن أبي سعيد الخدري.
قلت: هذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال "الصحيح "؛ وأبو نضرة: اسمه
المنذر بن مالك بن قُطَعَةَ.
والحديث أخرجه النسائي (1/93) ، وابن ماجه (1/234- 235) ، وابن خزيمة
(345) ، والبيهقي (1/451) ، وأحمد (3/5) من طرق عن داود بن أبي هند...
به. وقال الحافظ في "التلخيص " (3/29) :
" وإسناده صحيح ".
وله شاهد من حديث ابن عباس مرفوعاً: أخرجه الطبراني (3/149/2) .
ولجملة الانتظار شاهد من حديث أنس .
أخرجه النسائي بسند صحيح على شرط الشيخين. وهو عند البخاري
(572) .
ورواه مسلم (2/116) من طريق أخرى عن أنس.
وكذا أبو عوانة (1/362- 363) ، وأحمد (3/467) .
الإرواء (257)