تشریح:
(1) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نیکیاں حاصل کرنے کا کس قدر شوق رکھتے تھے یہ واقعہ اس کی ایک ادنٰی مثال ہے کہ دور دراز راستے کی مشقت صرف اس لیے گوارا ہے کہ دور سے چل کر آنے میں ثواب زیادہ ہوگا۔
(2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی باہمی ہمدردی بھی قابل اتباع ہے کہ ایک صحابی اپنے ساتھی کی مشقت کو اس طرح محسوس کرتا ہے گویا وہ مشقت خود اسے لاحق ہے اس لیے اسے مناسب مشورہ دیتا ہے۔
(3) مسلمان کی خیر خواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے اچھا مشورہ دیا جائے اگر چہ اس نے مشورہ طلب نہ کیا ہو۔
(4) حضرت ابی نے اس صحابی کی بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی تاکہ آپ ﷺ اسے نصیحت فرمائیں اس لیے اگر کسی کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ فلاں بزرگ کی نصیحت پوری کرلے گا تو اس بزرگ کو اس ساتھی کی غلطی اصلاح کی نیت سے بتا دینا جائز ہے۔ البتہ اسے ذلیل کرنے کی نیت سے بتانا درست نہیں۔
(5) کسی کی شکایت پہنچے تو تحقیق کیے بغیر اس کے بارے میں کوئی نامناسب رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔ بہتر ہے کہ خود نامناسب الفاظ کہنے والے سے دریافت کرلیا جائے کہ اس کا ان الفاظ سے کیا مطلب ہے؟
(6) مومن کی اچھی نیت ثواب کا باعث ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه مسلم وأبو عوانة في
"صحيحيهما") .
إسناده: حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي: نا زهير. نا سليمان التيمي أن أبا
عثمان حدثه عن أُبيّ بن كعب.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين.
(3/82)
والحديث أخرجه أبو عوانة (1/389) من طريق يحيى بن أبي بكير قال: ثنا
زهير... به.
ثم أخرجه هو، ومسلم (2/130) ، والدارمي (1/294) ، وأحمد (5/133)
من طرق أخرى عن سليمان التيمي... به.
ثم أخرجه أربعتهم- إلا الدارمي-، وابن ماجه (1/263) من طريق عاصم
الأحول عن أبي عثمان النهدي... به نحوه.
وأخرجه البيهقي (3/64) عن سليمان.
وله شاهد- عند ابن ماجه- من حديث أنس مختصراً.
وسنده صحيح.